فرانسیسی بائبل اور آثار قدیمہ اسکول یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) سے وابستہ ایک محقق فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ رینے ایلٹر نے بتایا کہ غزہ کی اسرائیل کے ساتھ اکثر کشیدہ سرحد سے ایک کلومیٹر(آدھے میل) سے بھی کم فاصلے پریہ نقش ونگار پائے گئے ہیں اور یہ’’تحفظ کی بہترین حالت میں‘‘ہیں۔ان کی ٹیم نے اس دریافت شدہ پچی کاری کا معائنہ کیا ہے۔
ایلٹر نے کہا کہ یہ بہترین معیاری کام ہے۔اس کی تیاری میں ایسے مواد کا استعمال کیا گیا تھاجو یقیناً نسبتاً مہنگا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے،کبھی یہ پچی کاری کسی چرچ یا نجی ولا کے فرش کی زینت رہی ہو۔یہ حالیہ برسوں میں غزہ میں بازنطینی آثارقدیمہ کے سلسلے میں تازہ دریافت ہے۔
جنوری میں غزہ کی پٹی کے شمال میں واقع جبالیہ میں تین سالہ بحالی منصوبہ کے بعد پانچویں صدی کے دریافت شدہ ایک چرچ کے آثار کی نقاب کشائی کی گئی تھی۔
یادرہے کہ بازنطینی دور فلسطین میں دولت وثروت اور فنی سرپرستی کا دور تھا۔اسی دورمیں بہت سے نئے گرجا گھروں اوردیگر یادگاروں کی تعمیر کی گئی تھی۔ اس کااختتام 630ء کی دہائی کے آخر میں مسلمانوں کی فتح کے ساتھ ہوا تھا۔
مگرآج کاغزہ غربت زدہ اور گنجان آباد ہے۔اس فلسطینی علاقے میں قریباً 23 لاکھ افراد رہتے ہیں۔اسرائیل نے 2007 سے اس کی بری اور بحری ناکا بندی کررکھی ہے۔