اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کےسربراہ اسماعیل ہنیہ نے قوم کے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ موجودہ چیلنجوں کا مقابلہکرنے کے لیے تین اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے کے لیے کام کریں۔ پہلا ہدف ملک کے اتحادکے لیے کام کرنا، دوسرا اعتدال پسند فکر کو فروغ دینا اور صحیح عقیدے کی حفاظت کرنااور تیسرا عسکری اور سکیورٹی اتحاد کے ذریعے صیہونی وجود کو خطے میں ضم کرنے کی کوششوںکا مقابلہ کرنا ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے ترکی میں منعقدہ یوتھ فورم سےخطاب میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو فروغدینے۔ اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کا دائرہ وسیع کرنے اور صہیونی ریاست کے ساتھمعمول کے تعلقات استوار کرنے کے خلاف ہونے والی کوششوں اور نوجوانوں کے کردار کوسراہا۔
انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کے نوجوان فلسطینیکاز اور فلسطینی قوم کے آزادی کے نصب العین کے ساتھ ہیں۔ تاہم ان کی سوچ بدلنے کیسازش ہو رہی ہے۔فلسطینی نصب العین کوعرب اور اسلامی گہرائی سے الگ تھلگ کرنے اور اسےختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس لیے آج کا پیغام آج نوجوانوں کو فلسطینی کاز، القدس اورمزاحمت کے ساتھ کھڑا ہونے کی دعوت دینے کا ہے۔
اسماعیل ھنیہ کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کےغاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے فلسطینی قوم میں اتحاد کے ساتھ ساتھ پوری امت مسلمہکے اتحاد کی ضرورت ہے۔دشمن مسلم امہ کو منقسم کرکے اسے آپس میں لڑانا چاہتا ہے۔
امریکی صدرکے دورہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں باتکرتے ہوئے اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ امریکا فلسطینی قوم کے مصائب کا ذمہ دار ہے۔امریکیوں سے انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی جو صہیونی ریاست کے جرائم پر چشم پوشیاختیار کرتے اور فلسطینی قوم کو دھوکہ دیتے ہیں۔
انہوں نے فلسطینی قوم، مسلم امہ اور نوجوانوںپر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کی امریکی مہم کا ہرسطح پر ڈٹ کر مقابلہکریں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس وقت امریکا کی مددسے نارملائزیشن کی راہ پر گامزن ہے، جو کامیاب نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ ریاست خطے کے لیےاجنبی ہے۔ صہیونی ریاست عرب دنیا کے جسد میں ایک سرطانی غدود ہے جسے اس جسم سےالگکرنا ہوگا۔