اسلامی تحریک مزاحمت[حماس] نے اسرائیلی دشمن کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس میں القیامہ چرچ میں عیسائی برادری کے داخلے پرعاید پابندی کی شدید مذمت کی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جمعہ کے روز جاری ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی عدالت کا القیام چرچ میں عیسائی زائرین کی ان کے مذہبی تہوار ’لائیٹ سنیچر‘کے موقعے پرحاضرین کی تعداد کو چار ہزار تک محدود کرنا فلسطینیوں کے مذہبی امور میں مداخلت کے مترادف ہے۔
حماس رہ نما ڈاکٹر باسم نعیم نے ایک بیان میں کہا کہ فلسطینیوں کے مذہبی امور میں مداخلت اسرائیل کی ایک سوچی سمجھی اور روایتی پالیسی ہے جس کا مقصد نسل پرستانہ جرائم کو آگے بڑھاتے ہوئے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے مذہبی امور کے انتظام میں صہیونی عدالتوں کی براہ راست مداخلت کی تاریخی نظیر ہےجو صہیونی ریاست کی نسل پرستانہ نوعیت کی تصدیق کرتی ہے۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہم عبادت کی آزادی کی ضمانت کےمسیحی برادری کے دعووں پر یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ صہیونی ریاست بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کی صریح خلاف ورزی اور القدس شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے صہیونی منصوبوں کی حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
نعیم نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام کو اپنے اسلامی اور عیسائی مقدسات کے دفاع کا حق حاصل ہے اوردشمن کا کوئی منصوبہ انہیں اس سے باز نہیں رکھ سکتا۔
خیال رہے کہ دو روز قبل اسرائیل کی ایک مقامی عدالت نے بیت المقدس میں عیسائیوں کے مقدس مقام کنیسہ القیامہ میں ان کے مذہبی تہوار کے موقعے پر داخلے پر پابندی عاید کردی تھی اور صرف چار ہزار زائرین کو چرچ میں جانے کی اجازت تھی۔