گذشتہ برس غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں شہر میں رطب ویابس کی تباہی کے جو ہولناک مناظر عالمی ذرائع کے توسط سے دنیا تک پہنچے ان میں ایک نمایاں نام شہر کے مشہور بک سٹور کا بھی تھا۔
جمعرات کے روز اس بک سٹور کے دوبارہ کھلنے پر کتب خانے کا مالک سمیر منصور اور ان کے بہی خواہوں کی بڑی تعداد فرط جذبات سے مغلوب ہو کر خوشیاں منا رہی ہے۔
ایک لاکھ کتابوں کے ساتھ خاک اور راکھ کا ڈھیر بن جانے والا یہ بک سٹور 2000ء سے شہر کی تین بڑی جامعات کے طلباء اور اساتذہ کیساتھ ساتھ کتابوں کے شائقین کی توجہ کا بھی مرکز تھا۔
یاد رہے غزہ کی پٹی 2007ء سے اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے زیر نگین ہے۔ اہالیاں غزہ کو حماس کی حمایت کی پاداش میں اسرائیل نے اس ساحلی شہر کو سخت محاصرے لے کر پوری سے اس کا رابطہ منطقع کر رکھا ہے۔
اس محاصرے کی وجہ سے غزہ شہر شدید ہمہ جہت مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے باوجود سمیر منصور اپنے بک سٹور میں ہر وہ کتاب بہم کرنے کی ذمہ داری نبھاتے رہے جو شہر کی لائبریریوں میں میسر نہ ہوتیں۔ اس خاصیت نے اس سٹور کو اپنی نوع میں ممتاز رکھا۔
غزہ شہر میں سمیر منصور بک سٹور کی تباہی کے بعد کثیر تعداد میں عطیات جمع کیے گئے تاکہ یہ دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ منصور کے مطابق ’’ان عطیات میں ایک بڑا حصہ علم دوست برطانوی رضاکاروں کیطرف سے ملا ہے، جس میں رقم کیساتھ تقریباً ڈیڑھ لاکھ کتب بھی ہیں۔‘‘
مجموعی طور چالیس لاکھ کتب کیساتھ یہ سٹور پہلے سے زیادہ تنوع اور گنجائش کیساتھ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ اس وقت یہاں بچوں اور بڑوں کے لیے معلومات، کہانیوں، ناولوں، پیشہ ورانہ علوم اور کئی دوسرے موضوعات پر عرب اور غیر عرب، مقامی اور بین الاقوامی مصنفین کی کتابیں موجود ہیں۔
غزہ کے منفرد بک سٹور سے استفادہ کرنے والی یارا عید کا کہنا ہے کہ ’’انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ جانا ہے اگر یہ سٹور دوبارہ شروع نہ ہوتا تو وہ مشکل میں پڑ جاتیں۔‘‘
خود سمیر منصور سمجھتے ہیں کہ ’’یہ جنگ انہیں خوفزدہ نہیں کر سکتی۔ اس تباہی میں انکی تعمیر مضمر ہے۔‘‘
غزہ کے منصور کا یہ کتب خانہ محض کتابوں کی دکان نہیں ہے۔ یہ غزہ میں امن کی امید پہ طویل محاصرہ کاٹنے والوں کے لیے کے لیے ایک کھڑکی ہے جہاں سے وہ اپنے حصار کے باہر بدلتی اور بھاگتی دوڑتی دنیا کو دیکھتے ہیں اور اپنے لیے ایسی ہی پر امن اور خوبصورت زندگی کے خواب کو زندہ رکھتے ہیں۔