اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے بیرون ملک امور کے نائب سربراہ ڈاکٹرموسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ حماس کی اولین ترجیح طاقت جمع کرنےکا عمل جاری رکھنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے باعزت تبادلے کے معاہدے کے لیے ایک مربوط روڈ میپ پیش کیا ہے۔
حماس کے34 ویں یوم تاسیس کے موقعے پر ” مرکزاطلاعات فلسطین” کو دیے گئے انٹرویو میں حماس کے بین الاقوامی تعلقات کے دفتر کے عہدیدار نے فلسطینی حقیقت کو متاثر کرنے والی کئی اہم اور بڑے معاملات پر بات کی۔
حماس کے 34 ویں یوم تاسیس پر جماعت کا مفاہمتی وژن
ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے فلسطینی دھڑوں کے درمیان مفاہمت کی تکمیل اور موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے حماس کے ذاتی نقطہ نظر پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ حماس پوری فلسطینی قوم کو سیسہ پلائی دیوار دیکھنا چاہتی ہے۔ فلسطینی قوم کے باہمی اتحاد کے ساتھ قوم کی ایک قیادت اور ایک وژن کی خواہاں ہے۔
فلسطینی پوزیشن کو دو اہم پروگراموں میں تقسیم کیا گیا ہے جس نے اسے عمومی طور پر کمزور کیا۔ دُشمن فلسطینی اتھارٹی کی قیادت پر نمائندگی نہ کرنے کا الزام لگاتا رہا۔ دوسرا فلسطین کی موجودہ صورت حال ہے۔ دشمن یہ استفسار کرتا ہے وہ کس سے فلسطینی قوم کا نمائندہ سمجھ کر بات کرے۔ فلسطینی اتھارٹی کی اس صورت حال نے عرب ممالک کو امریکی دباؤ کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا موقع فراہم کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں دو پروگراموں کا سامنا ہے جن میں سے پہلا سیاسی سمجھوتا ہے۔ اس نے فتح کی انقلابی اورعوامی ساکھ کو ختم کردیا، تاہم فتح کے پاس صرف بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر تعلقات رہ گئے۔ دوسرا پروگرام مزاحمت کا ہے۔ جسے عام فلسطینی عوام کی وسیع حمایت حاصل ہے۔ یہاں تک کہ فلسطین میں متعدد مقامات پر مزاحمت عملا موجود ہے۔
تحریک کا وژن تین اصولوں اور دو میکانزم کے گرد گھومتا ہے۔ پہلا اصول فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی قیادت کی تنظیم نو پر توجہ مرکوز کرنا ہے تاکہ ہمارے فلسطینی عوام کی نمائندگی کرنے والی تمام قوتوں اور دھڑوں کو انتخابات کے ذریعے شامل کیا جائے۔اگر یہ ممکن نہ ہوں تو ایک عارضی قومی قیادت اور عبوری انتظامیہ تشکیل دی جائے جو موجودہ سیاسی خلا کو پُر کرے اور انتخابات کے لیے ماحول ساز گار بنائے۔
دوسرا اصول قومی حکمت عملی پر متفق ہونا ہے جس پر سب متفق ہوں اور تیسرا اصول قومی، میدانی اور سیاسی عمل کے طریقہ کار اور صہیونی دشمن کے ساتھ تنازعہ کے انتظام سے متعلق ہر چیز پر اتفاق رائے کا مطالبہ کرتا ہے۔
جہاں تک پہل کے طریقہ کار کا تعلق ہے پہلا وہیں سے شروع کرنا ہے جہاں سے مفاہمتی بات چیت ختم ہوئی۔ دوسرا قومی دھڑوں کے رہ نماؤں کو سنہ 2011ء میں قاہرہ میں طے پائے معاہدے کےمطابق ایک میٹنگ کے لیے مدعو کرنا ہے۔
مغربی کنارہ ماضی اور حال میں محاذ آرائی اور تنازعات کا مرکز ہے۔ یہاں تک کہ قبضے سے آزاد کیا جائے، تمام یہودی بستیاں ختم کردی جائیں اورکوئی آباد کار اس میں باقی نہ رہے۔ قومی اور مزاحمتی سطح پر یہ اہم معاملہ ہے۔
مغربی کنارے میں انفرادی اور منظم مزاحمت قابض ریاست میں رہنے والے لوگوں کا فطری رد عمل ہے اور ہمارے عوام کے آزادی کی جدو جہد کے عزم کا اظہار ہے۔
فلسطینیوں کی مزاحمتی کارروائیوں کو روکنے کے لیے نہ صرف اسرائیلی فوج سرگرم ہے بلکہ فلسطینی اتھارٹی کی ماتحت سیکیورٹی فورسز کی طرف سے بھی اسے بھرپور حمایت اور مدد حاصل ہے۔ مگر ہمیں اللہ سے قوی امید اور قوم پر یقین ہے کہ وہ دشمن کو حیران کرنے والی مزید ایسی جرات مندانہ مزاحمتی کارروائیاں جاری رکھے گی۔
دوسری طرف ہم آج آباد کاری کی سرگرمیوں میں توسیع کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ میں یہودی آباد کاری کے معاملے کو امریکا کا ویٹو حاصل ہوتا ہے۔ اس کےساتھ ساتھ امریکا کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کے لیے دباؤ ہے۔
غزہ میں طویل معیاد جنگ بندی سے معلق حماس کا موقف
ابو مرزوق کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں ہمارے فلسطینی بھائیوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اور وہ مسلسل بڑے اور دم گھٹنے والے معاشی بحرانوں سے دوچار ہیں۔ ان پر ایک غیر انسانی محاصرہ مسلط کیا گیا ہے۔ انہیں یہ سزا اس لیے دی جا رہی ہے کہ وہ صہیونی منصوبے کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے قضیہ فلسطین کے تصفیے کے بدلے میں تمام پیشکشوں کو مسترد کر دیا ہے۔
ہم ہمیشہ غزہ کی پٹی کے بحرانوں کو ختم کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وہاں کے اپنے لوگوں پر دباؤ کم کرنے کے لیے ان کے لیے بند دروازے کھولنے کے لیے ہرممکن معاشی ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چاہے وہ جنگ بندی سے متعلق ہوں یا کسی اور معاملے سے جڑے ہوں۔ جہاں تک دشمن کے ساتھ کسی معاہدے کا تعلق ہے تو جب تک وہ معاہدے پر پورا نہیں اترتا ہم بھی اس کی پاسداری نہیں کریں گے۔ ہماری مزاحمت ہر وقت جاری رہے گی۔
اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے حوالے سے ممکنہ ڈیل
ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق کا کہنا ہے کہ انتفاضہ کی سالگرہ اور تحریک کے آغاز پر سب سے پہلے اپنے قیدیوں کو دلی مبارکباد کے ساتھ مخاطب کرنا اور ان کے لیے جلد از جلد نجات کی دعا کرنا حماس کی اولین ترجیح ہے۔ ان کی جماعت نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے مصری بھائیوں کے سامنے ایک باوقار تبادلے کے معاہدے کے حصول کے لیے ایک مربوط روڈ میپ پیش کیا۔ اس روڈ میپ میں ہم نے تمام منظرنامے پیش کیےاور ہر منظر نامے کے لیے مطلوبہ قیمت شامل کی۔ تاہم، دشمن کے پاس ابھی بھی اس معاہدے کو پورا کرنے کے لیے خاطر خواہ عزم کا فقدان ہے۔ دشمن کی حکومت کم زور ہے جو انتہائی دائیں بازو اور انتہائی بائیں بازو پر مشتمل ہے اور اس کے پاس فیصلہ کن اتھارٹی نہیں۔ وہ بڑے اور حل طلب مسائل پر بات کرنے کی جرات نہیں کرسکتی۔ اسرائیلی حکومت کو خطرہ ہے کہ وہ کوئی بڑا قدم اٹھائے گی تو ٹوٹ جائے گی۔ اس لیے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں وہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔
حماس کی قیادت کے چناؤ کے بعد ترجیحات
ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ حماس کی قیادت مسلسل اپنی ترجیحات پر توجہ مرکوز رکھتی ہے۔ہماری، موجودہ قیادت کے دور میں کئی ترجیحات ہیں جن میں سے سبھی آزادی اور حق واپسی، مزاحمت، اور مقدسات کے تحفظ کے اہداف کے گرد گھومتی ہیں۔
بہر حال ہماری اولین ترجیح ہر قسم کی مزاحمت میں طاقت جمع کرنا ہے۔ جہاں بھی ممکن ہو صیہونی منصوبے کے خلاف مزاحمت کرنا ہے۔ یہی سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ فلسطینی قومی تعطل سے نکلنے کے علاوہ قومی اتحاد، داخلی ہم آہنگی، دشمن سے تصادم، بیت المقدس کا دفاع اور غزہ کی پٹی پر محاصرہ اٹھانا حماس کی ترجیحات میں شامل ہے۔