پیر کی صبح طلوع آفتاب سے قبل ہائی سکیورٹی والی جلبوع جیل سے فرار ہو کر 6 فلسطینی قیدیوں کو ان کی آزادی سے نکالنے کا عمل اب بھی کئی سوالات کوجنم دیتا ہے کہ انہوں نے اس آپریشن کو کس طرح انجام دیا۔جسے جیل سے سب سے خطرناک فرار سمجھا جاتا ہے۔
ان سوالات میں سے ایک سب سے نمایاں سوال یہ ہے کہ تحقیقات کے مطابق سال بھر کی کھدائی کے عمل کی مٹی اور ملبہ کہاں غائب ہوا؟
واللا ویب سائٹ نے ایک سینیر سیکورٹی عہدیدار کے حوالے سے کہاکہ سیل میں دھات لانے پرپابندی ہے۔ انہیں چمچ کہاں سے ملی؟ کھدائی کرنے والی مٹی کہاں غائب ہوگئی؟ انہوں نے جیل کے اندر سے فون کال کیسے کی ؟!”
اس موقع پر قابض جیل اتھارٹی کی کمشنر کیٹی پیری نے فرار ہونے کے بعد جیل میں صحافیوں کو بتایا کہ ابتدائی تفتیش سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی کھدائی نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک تختہ اٹھایا گیا تھا جس سے سیوریج لائن کو ڈھانپا گیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق چھ قیدی اپنے سیل میں موجود سیوریج سسٹم کے ذریعے ایک سرنگ کےراستے فرار ہو گئے تاہم حکام نے بتایا کہ ایک سیکیورٹی خلا نے انہیں باہر نکلنے کا راستہ کھودے بغیر فرار ہونے دیا۔
اسرائیلی جیلوں کے اتھارٹی میں شمالی بریگیڈ کے کمانڈر ایرک یعقوب نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ قطعی طور پر کھودی گئی سرنگ نہیں ہے بلکہ ایسی چیز ہے۔ قیدیوں نے جیل کے اندر کے سیکیورٹی سسٹم میں کمزوری سے فائدہ اٹھایا۔
ایسا لگتا ہے کہ کالموں پر بنائے گئے ڈھانچے میں کوئی خرابی ہے جس کا قیدی بظاہراپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
میرا مطلب یہ ہے کہ قیدیوں نے بہت زیادہ کھدائی نہیں کی بلکہ انہیں فرار ہونے میں مدد ایک نکاسی آب کی سرنگ نے کی، لیکن کیا جیل کے باہر پارٹیوں کے ساتھ انتظامات تھے؟ کیا کسی نے جیل کے اندر سے ان کی مدد کی؟ چینل 12 کہنا ہےکہ قیدیوں کو زیر زمین زیادہ کھدائی نہیں کرنا پڑی کیونکہ جیل کو مضبوط ستونوں کی مدد حاصل ہے۔ وہ ان کے نیچے رینگتے رہے یہاں تک کہ وہ باڑ کے پیچھے والے علاقے تک پہنچ گئے۔
وہاں سے وہ ایک سوراخ سے باہر آئے۔ چھ کلومیٹر تک پیدل چلتے ہوئے وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں ایک کار ان کا انتظار کر رہی تھی۔ اس جگہ پر پانی کا ایک تالاب تھا۔
ٹریک کیے گئے اسرائیلی پولیس اہلکاروں کو پاؤں کے نشانات اور جوتے بھی ملے جس کی وجہ سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ قیدیوں نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے اپنے کپڑے تبدیل کیے اور ان میں سے ایک نے جوتے بھی بدلے۔