اسرائیل میں آباد عرب شہریوں اور مکینوں پر 2003 ءسے اپنے فلسطینی شریکِ حیات سے ملنے پرعاید پابندی ختم ہو گئی ہے اور اسرائیلی پارلیمان اس متنازع قانون میں توسیع کی منظوری دینے میں ناکام رہی ہے۔
اسرائیل کے نئے وزیراعظم نفتالی بینیٹ کی پارلیمان میں یہ پہلی شکست ہے اور وہ اپنے حکومتی اتحاد میں شامل یہودی بائیں بازو کی جماعتوں اور عرب قدامت پسندوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ان دونوں گروپوں نے اس قانون کی شدید مخالفت کی ہے۔
پارلیمان میں اس متنازع قانون پر رائے شماری کے وقت 59 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا اور 59 ارکان ہی نے اس کی مخالفت کی ہے۔اس طرح یہ قانون ختم ہو گیا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 120 ارکان پر مشتمل پارلیمان میں نفتالی بینیٹ کو عددی برتری حاصل نہیں اور ان کی قیادت میں آٹھ جماعتوں پر مشتمل نیا اتحاد تمام سیاسی امور میں یک سونہیں ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے دوسری فلسطینی انتفاضہ تحریک کے دوران میں پہلی مرتبہ عرب شہریوں پر یہ پابندی عاید کی تھی۔اس کے حامیوں نے اس کو سلامتی کی بنیاد پر جائز قرار دیا تھا لیکن ناقدین نے اسے اسرائیل کی عرب اقلیت کو نشانہ بنانے کے لیے ایک امتیازی اقدام قرار دیا تھا۔
اس پابندی کی وجہ سے اسرائیل میں آبادعربوں اور 1967 سے اس کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے لیے لامتناہی پیچیدگیاں پیدا ہوگئی تھی اور وہ گوناگوں خاندانی مسائل سے دوچار ہوگئے تھے۔اس قانون سے متاثرہ افراد کی ایک بڑی تعداد اسرائیل کے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں رہتی ہے،انھیں اسرائیل کی اقامت حاصل ہے لیکن وہ اسرائیلی ریاست کے شہری نہیں ہیں اور نہ اس نے انھیں دوسرے اسرائیلیوں کے مساوی شہری حقوق دیے ہیں۔