کل جمعرات کے روز فلسطینی اتھارٹی کی ماتحت پولیس نے سرکردہ فلسطینی سماجی کارکن نزار بنات کو ان کے گھر سے گرفتار کیا جس کے کچھ دیر بعد اس کی لاش ورثا کے حوالے کی گئی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی عوامی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں اس واقعے کو فلسطینی اتھارٹی کی مجرمانہ دہشت گردی قرار دیتے ہوئے نزار بنات کے قتل کی آزادانہ تحقیقات کرنے اور قتل میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی پالیسیوں سے سیاسی اختلاف رکھنے والے سماجی کارکن نزار بنات کو جمعرات کی صبح کو حراست میں لیا گیا جس کے بعد ان کے آبائی شہر الخلیل میں ان کے ورثا کو بتایا گیا کہ بنات کی دوران حراست موت واقع ہوگئی ہے۔
الخلیل کے گورنر میجر جنرل جبرین البکری نے بتایا کہ نزار بنات سیکیورٹی فورسزکی جانب سے گرفتاری کے بعد حراست ہی میں انتقال کرگئے تاہم مقتول کے اہل خانہ نے اسے ایک سوچا سمجھا ’قتل‘ قرار دیتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی اور اس کے ماتحت نام نہاد سیکیورٹی اداروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
وکلا برائے انصاف تنظیم سے منسلک ایک وکیل مہند کراجہ نے بتایا کہ الخلیل میں فری ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرمین ایڈووکیٹ فرید الاطرش نے بتایا کہ نزار بنات کو عباس ملیشیا کی حراست میں تشدد کرکے شہید کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ عباس ملیشیا کے 20 مسلح عناصر نے جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے تین بجے نزار بنات کے گھر میں گھس کر اسے بری طرح مارا پیٹا اور پورے خاندان کو کئی گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ بعد ازاں عباس ملیشیا کے غنڈے جلاد بنات کو تشدد کرتے ہوئے ساتھ لے گئے تھے۔
انسانی حقوق کے مندوب نے بتایا کہ عباس ملیشیا نے نزاربنات کے گھر میں اسے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ سو رہے تھے۔ اس کے بعدانہیں پولیس گاڑی میں ڈال کرنامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔
نزات بنات کے اہل خانہ نے بنات کی موت کو ایک سوچا سمجھا اور منصوبے کے تحت قتل قرار دیا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی پر بنات کےقتل کی آزادانہ تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالے۔