فلسطینی قوم کو قابض اورغاصب صہیونی ریاست کی طرف سے کے انواع کے مظالم کا سامنا ہے۔ انہی مظالم میں ایک شکل ان کے گھروں کی جبری مسماری اور غیرقانونی قرار دے کر فلسطینیوں پرعرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔ جب سے عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ دوستی کی مہم شروع ہوئی ہے فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کی مہم بھی شدید تر ہوگئی ہے۔
مکانات مسماری کی مہم کا ہدف مقبوضہ مغربی کنارا، وادی اردن اور مقبوضہ بیت المقدس ہے۔ عالمی قوانین سے کھلواڑ کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے گھروں کی غیر مسبوق مسماری شروع کررکھی ہے۔ انسانی حقوق کے اداروںکی طرف سے اس ظالمانہ مہم پر گاہے آواز بھی بلند کی جاتی ہے مگر مجموعی طور پرعالمی برادری اسرائیلی ریاست کے اس سنگین جرم پر خاموش تماشائی ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کی املاک کی مسماری کے لیے نسل پرستانہ قوانین وضع کررہی ہے۔ مثال کے طور پر دیوار فاصل کے قرب وجوار کے علاقے کو فلسطینیوں کے لیے ممنوعہ علاقہ قرار دیا جاتا ہے۔ دیوار فاصل کے اطراف میں بسنے والے فلسطینیوں کو جبری ھجرت پرمجبور کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ گھروں کی مسماری کی اجتماعی سزائیں دی جاتی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی سماجی کارکن اور اسرائیلی ریاست کے جرائم پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار قاسم عواد نے کہا کہ رواں سال کے دوران اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں میں مجموعی طور پر مسماری کی 618 کارروائیاں انجام دیں۔ ان میں 226 کارروائیاں صرف القدس میں انجام دی گئیں جو کہ کل مسماری کی کارروائیوں کا 36 فی صد ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کی کارروائیاں ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب دوسری طرف انہی فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی توسیع پسندی، آباد کاری اور فلسطینی اراضی کے الحاق یعنی لوٹ کھسوٹ کے منصوبوں پرعمل درآمد بھی تیز کردیا گیا ہے۔
گذشتہ سوموار کو اسرائیل نے غرب اردن کے سیکٹر’سی’ میں فلسطینی اراضی کو ہموار کرنے کے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا۔
قاسم عواد کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی اراضی کو ضم کرنے کے لیے مختلف حیلے تراشے جا رہے ہیں۔ فلسطینی اراضی کو املاک متروکہ قرار دے کر اسرائیلی ریاست کی ملکیت سمجھا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو ان کی اراضی میں جانے اور وہاں پر کسی قسم کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دے رہا۔ اس مذموم مقصد کے لیے جھوٹے اور جعلی بہانے تلاش کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال کے آغاز سے فلسطینیوں کی 25 فی صد زیرتعمیرات املاک کو روکا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے فلسطینی اراضی پرقبضے کا سلسلہ جاری ہے۔ القدس اور غرب اردن اسرائیل کا خاص ہدف ہیں۔
انہوںنے مزید کہا کہ صہیونی ریاست ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت القدس کی بڑی یہودی کالونیوں جن میں معالی ادومیم ، صنعتی سیکٹر اور القدس کے اطراف کی کالونیوں کو باہم ملا کر ‘گریٹر یروشلم’ کے منصوبے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ آئندہ انتخابات سے قبل القدس میں فلسطینی آبادی کل آبادی کا 5 سے 10 فی صد رہ جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیم’بتسلیم’ کے مطابق اسرائیل نے بہ ظاہر غرب اردن کے الحاق کے منصوبے پرعمل درآمد سے انکار کیا ہے مگر یہ صرف ایک نمائشی دعویٰہے۔ در حقیقت اسرائیل عملا فلسطینی اراضی کے الحاق اور اس کی لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور زمین پرکوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے دوران اسرائیلی حکومت نے فلسطینی املاک کی مسماری میں غیر معمولی اضافہ کیا جس کے بعد املاک ک مسماری میں 200 فی صد اضافہ ہوا ہے۔