اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل پانچ ہزار سے زاید فلسطینیوں میں چالیس سے زائد خواتین بھی قید ہیں۔ ان میں 15 خواتین چھوٹے چھوٹے بچوں کی مائیں ہیں جو صہیونی عقوبت خانوں میں قید کیے جانے کے نتیجے میں اپنے بچوں سے دور کردی گئی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیموں کی بار بار اپیلوں کےباوجود صہیونی ریاست ان فلسطینی مائوں کو بےرحمی کے ساتھ قید کیے ہوئے ہے۔ مائوںکو قید کرنا صرف ان خواتین کو اذیت پہنچانا ہی نہیں بلکہ ان کے کم سن بچوں اور پورے کے پورے خاندان کو ذہنی اور نفسیاتی اذیتیں دینے کے مترادف ہے۔
اس وقت اسرائیلی زندانوں میں 15 فلسطینی مائیں قید ہیں۔ ان میں سے تین ‘ھشارون’ جیل میں ہیں۔ ان میں 52 سالہ نوال السعدی پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ 38 سالہ انتصار الصیاد کا تعلق القدس سے ہے اور وہ چار بچوں کی ماں ہیںجب کہ 32 سالہ رنا ابو کویک رام اللہ سے ہیں اور ان کے بھی 4 بچے ہیں۔
قید وبند کے ساتھ ساتھ ان فلسطینی مائوںکو ان کے بچوں سے ملنے کی اجازت تک نہیں دی جاتی۔ ان میں سے بعض نے صہیونی زندانوں میں قید کے دوران بچوں کو جنم دیا اور ان کے بچے ان سے چھین لیے گئے۔
صہیونی زندانوں کی طرف سے قید فلسطینی مائوں اوران کے بچوں کے ساتھ یہ ظلم کیا جاتا ہے ان کے علاج کےلیے بنیادی سہولیات تک نہیں دی جاتیں اور جن مائوںکے ساتھ ان کے بچے قید ہیں انہیں دودھ اور خوراک نہیںدیا جاتی۔
حال ہی میں صہیونی زندانوں سے رہائی پانے والی 41 سالہ ھیفا ابو صبیح نے بتایا کہ صہیونی زندانوں میں ان کے ساتھ کس طرح کا ناقابل قبول طرز عمل اور برتائو کیا جاتا ہے وہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی زندانوں میں قید ایک کے بعد دوسرے عذاب کو جھیلنے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صہیونی جیلوں میں انتظامیہ انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے سفارشات کو قبول کرنے سے انکار کردیتی ہے اور خواتین، بچوں، مائوں کو ان کی بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ھیفا نے کہا کہ اسے مئی 2015ء کو گرفتار کیا گیا اور مسلسل 16 ماہ تک زیرحراست رکھا گیا۔ 17 مارچ کو اس کی رہائی عمل میں لائی گئی جب کہ گرفتاری کے وقت اس کے چھ بچوںمیں سے سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر چو سال تھی۔
ایک سوال کے جواب میں ھیفا کا کہنا تھا کہ وہ ایک ماں ہی نہیں بلکہ ایک اسکول کی پرنسپل بھی ہیں۔ اس طرح اس کی ذمہ داریاں اس کے گھر سے باہر اس کے اسکول کے بچوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ میرے اپنے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ میرا بڑا بیٹا انٹرمیڈیٹ میں ہے جب کہ شوہر بلند فشار خون اور ذیابیطس کے مریضہیں۔
اس نے کہا کہ صہیونی زندانوں میں قید کاٹنے کا ایک ایک لمحہ آزمائش سے بھرپور ہوتا ہے۔ وہ تمام مشکل حالات ہم نے ایمان اور صبر کے ذریعے برداشت کیے۔
اس کا کہنا تھا کہ میرا اپنے خاندان سے دور اور دشمن کی قید میںگذرنے والا پہلا تجربہ ہے۔ اس نے جیل کے دوران بھی دوسری 26 اسیران کی نمائندگی کی اور ان کے علاج اور خوراک کے معاملے میں صہیونی جیلروں کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑتے۔
ایک سوال کے جواب میں اسیرہ کا کہنا تھا کہ ایک ماں کے لیے سب سے تکلیف دہ اپنے کم سن بچے کو دیکھنے کے لیے انتظار کا وقت ہوتا ہے۔ یہ وقت بہت مشکل سے کٹتا ہے۔
اس نے کہا کہ صہیونی جیلر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسیران کو ان کے حقوق سے محروم کرتے اور انہیں بچوں سے ملنے سے محروم رکھتے ہیں۔