ارض فلسطین پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ اور ناجائز قبضے کے دوران وحشی صہیونی درندوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کے ان گنت واقعات تاریخ پرموجود ہیں، جو صہیونی ریاست کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔
انہی وحشیانہ اور اجتماعی قتل عام کے واقعات میں ایک واقعہ آج سے 67 برس قبل 14اکتوبر 1953ء کو مقبوضہ فلسطین کے علاقے قبیہ میں پیش آیا۔ یہ مقام رام اللہ کے شمال مغرب میں 19 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ 14 اکتوبر کو اس المناک اور وحشیانہ جارحیت کی برسی منائی گئی۔ وحشی صہیونی درندوں کے حملے کے 67 فلسطینی شہید اور دسیوں زخمی ہوئے۔فلسطین میں صہیونی ریاست کے وحشیانہ قتل عام کے سیاہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ قابض صہیونی ریاست کی طرف سے قبیہ کے علاقے میں فلسطینیوں کے درجنوں مکانات مسمار کر دیے۔ کئی کو آگ لگا کر نذرآتش کردیا گیا۔ بہت سے مکانات کو بارود سے اڑا دیا گیا۔
اس قتل عام کو ایک نیا دیر یاسین کہا جاتا ہے۔ یہ قتل عام 14 اکتوبر سنہ1953ء کی شام کوشروع ہوا اور اگلے دن تک جاری رہا۔
قابض صہیونی فوج نے چھپن مکانات ، ایک مسجد ، ایک اسکول ، پانی کے ٹینک اور کئی دوسری املاک کو تباہ کردیا گیا۔ صہیونی درندوں کی وحشیانہ کارروائی میں مصطفیٰ محمد حسان پہلے شہید تھے جب کہ ان کے خاندان کے مجموعی طورپر 12 افراد شہید ہوئے۔
فلسطینیوں کا یہ قتل عام ایک ایسے وقت میں ہوا جب ایک طرف صہیونی ریاست اور عرب ممالک کے درمیان مصالحت کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی اور دوسری طرف فلسطینی علاقوں میں غرب اردن کے علاقے میں ہرطرف دیوار فاصل کی تعمیر کی سازشیں شروع کردیں۔
دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ قابض صہیونی حکام کی طرف سے فوجیوں کو فلسطینیوں کے گھروں میں گھس کرانہیں بے رحمی کے ساتھ شہید کرنے،ان کے مکانات مسمار کرنے اور انہیں غیرمعمولی نقصان پہنچانے کے احکامات دیے گئے تھے۔
دیہاتیوں اور عینی شاہدین کے مطابق 14 اکتوبر کی شام کو مختلف قسم کے ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے پہلے سے تیار شدہ منصوبے کے مطابق قابض فوج نے وحشیانہ جارحیت مسلط کی۔
مقامی وقت کے مطابق 19:30 بجے کے لگ بھگ 600 اسرائیلی فوجی قبیہ گاؤں کی طرف بڑھا۔ گائوں کو چاروں اطراف سے گھیر لیا اور اسے دوسرے عرب دیہات سے الگ تھلگ کردیا۔
یہ حملہ گاؤں کے مکانوں پراندھا دھند توپخانے سے بھری گولہ باری سے شروع ہوا، جو اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ مرکزی فورس گاؤں کے مضافات تک نہیں پہنچی۔ قابض کی بھاری نفری نے قریبی دیہاتوں شقبا ، بدرس اور نعلین کے تمام راستے بھی سیل کردیے تاکہ وہاں سے فلسطینی قبیہ کی طرف نہ آسکیں۔
صہیونی گروہوں نے مختلف سڑکوں پر بارودی سرنگیں بھی نصب کیں تاکہ گاؤں کو مکمل طور پر الگ تھلگ کرکے دہشت گردی کا سلسلہ شروع کیا جائے۔
پیدل فوجوں نے مختلف سمتوں سے فائرنگ کردی ۔محمود عبدالعزیز کی سربراہی میں رہائشیوں اور نیشنل گارڈ کے جوانوں نے اپنے ہتھیاروں کی تھوڑی تعداد کے باوجود ان کا مقابلہ کیا اور جوابی فائرنگ کی۔ وہ اس وقت تک مزاحمت کرتے رہے جب تک کہ ان کا گولہ بارود ختم نہ ہوا اور بیشتر شہید ہو گئے۔
نیشنل گارڈ کا کمانڈر دیر قدیس گاؤں تک پہنچنے میں کامیاب رہا ، جہاں اس نے رام اللہ میں اردن کی فوجی کمانڈ کو مدد اور گولہ بارود کی طلب کی لیکن اردن کی فوجی کمک کی بدرس میں موجود اسرائیلی فوج کے ساتھ جھڑپ ہوئی اور وہ قبیہ کے مظلوموں کی مدد کو نہ پہنچ سکی۔
جب اسرائیلی فورسز گاؤں میں داخل ہوئی اور مختلف ہتھیاروں سے فائرنگ کی تو ساتھ ہی ساتھ قابض فوج نے پیدل فوج کی حفاظت کےلیے فلسطینیوں کے گھروں کے اطراف میں بارودی سرنگیں نصب کرنا شروع کردیں۔
سنہ 2017ء کو مرکزی شماریاتی ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق آج قبیہ کی آبادی 6.090 افراد پر مشتمل ہے ، جبکہ 5.131 دونم کا رقبہ ہے۔ یہ زیتون اور گندم کی کاشت کے لیے مشہور ہے۔ دیوار فاصل نے اس گائوں کو بھی تقسیم کررکھا ہے۔