جب صہیونی ریاست کے مظالم اور جبرو سفاکیت کا سلسلہ اپنی تمام حدوں سے گزر جاتا ہے تو فلسطینی قیدی صہیونی جلادوں کا غرور خاک میں ملانے کے لیے بھوک ہڑتال کا مشکل، صبر آزما اور بعض اوقات جان لیوا ہونے والا طریقہ اپناتے ہیں۔
صہیونی ریاست کے ظلم کا مقابلہ کرنے اور دشمن کا غرور خاک میں ملانے کے لیے فلسطینی اسیران کا یہ ہتھیار کافی کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ اسیران نے کئی ایسی انفرادی اور اجتماعی بھوک ہڑتالیں کر کے صہیونی دشمن سے اپنے جائز اور قانونی مطالبات منوائے۔
ان دنوں ایک فلسطینی ماہر عبداللطیف الاخرس ایک ایسے ہی اسیر ہیں جو مسلسل 80 دن سے بھوک ہڑتال کر کے صہیونی دشمن کے گھمنڈ اور تکبر کو چیلنج کر رہے ہیں۔
اسیر الاخرس اس وقت تشویشناک حالت میں ہے مگر اس نے دشمن کے سامنے نہ جھکنے کا عزم کرتے ہوئے رہائی یا شہادت تک بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
ماہر الاخرس نہ تو پہلے اسیر ہیں جو صہیونی دشمن کے سامنے بھوک ہڑتال کررہے ہیں نہ ہی آخری ہوں گے۔ یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے اور آئندہ بھی جب تک صہیونی دشمن کا جبرو ستیم جاری ہے فلسطینی یہ طریقہ اپناتے رہے ہیں کیونکہ فلسطینی اسیران کے پاس اپنے جائز، آئینی اور قانونی حقوق اور مطالبات منوانے کا کوئی پرامن ذریعہ نہیں بچا ہے۔
فلسطینیوں کی بھوک ہڑتالیں انفرادی اور اجتماعی شکلوں میں جاری رہتی ہیں۔ بھوک ہڑتال کرنے والا کوئی بھی قیدی ہر قسم کا کھانا ترک کرکے صرف نمک اور پانی پر اکتفا کرتا ہے۔
اجتماعی ہڑتال میں فلسطینی اسیران کا ایک گروپ اپنے متعین مطالبات کے حق میں بھوک ہڑتال کرتا ہے جبکہ انفرادی بھوک ہڑتال عموما انتظامی قید کے خاتمے کے مطالبے کے لیے شروع کی جاتی ہے۔
اسیرماہر الاخرس 80 دن سے بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔ ان کی بھوک ہڑتال خطرے کے مدار میں داخل ہوگئی ہے اور اسپتال میں انہیں بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے دبائو کا بھی سامنا ہے۔
فلسطینیوں کے ہاں بھوک ہڑتال کو ‘خالی معدے کا معرکہ’ قرار دیا جاتا ہے۔ بھوک ہڑتال میں اسیر ہرقسم کے غذائی مواد کے استعمال سے اجتناب برتتا ہے اور صرف تھوڑے سے پانی اور نمک پر گزارا کرتا ہے۔
اسیران ومحررین تنظیم ‘ واعد’ کے ڈائریکٹر عبداللہ قندیل نے کہا کہ بھوک ہڑتال کرنا فلسطینی اسیران کے پاس اپنے جائز اور قانونی مطالبات منوانا قیدیوں کے پاس واحد پرامن راستہ ہے۔ بھوک ہڑتالوں کے ذریعے فلسطینی اسیران نے خود کو مشکل میںڈالا مگر وہ صہیونی دشمن سے اپنے مطالبات تسلیم کرانے اور دشمن کو اپنے سامنے جھکنے پرمجبور کرنے میں کامیاب رہے۔
جب اسیران کی بھوک ہڑتال خطرناک موڑ میں داخل ہوتی ہے تو صہیونی ریاست پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی دبائو بڑھ جاتا ہے۔ اس کے بعد صہیونی جیل انتظامیہ اسیران کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوتی ہے۔ اس طرح فلسطینی قیدیوں کے پاس بھوک ہڑتال کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کا ایک بہتر اور مناسب راستہ ہے جو کافی حد تک کامیاب رہا ہے۔
دوسری جانب شہدا و اسیران فائونڈیشن کے رابطہ کار یاسر مزھر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسیران ماضی میں صہیونی زندانوں میں اجتماعی اور انفرادی بھوک ہڑتالیں کرتے رہے ہیں۔ یہ بھوک ہڑتالیں مشکل حالات اور ماحول میں ہوتی رہی ہیں۔
سنہ 1995ء میں فلسطینی اسیرہ عطاف علیان نے انفرادی بھوک ہڑتال کی جو 40 دن کے بعد صہیونی دشمن اس کے مطالبات تسلیم کرانے پرمجبور ہوگیا۔
سنہ 2012ء کو اسیر خضرعدنان نے طویل بھوک ہڑتال کی اور اپنی رہائی تک بھوک ہڑتال جاری رکھ کرثابت کی کیا کہ اسیران اپنے مطالبات تسلیم کرانے میں کامیاب ہیں۔
صحافی محمد القیق اور بلال دیاب، ھنا شلبی، جبرعزالدینم طارق قعدان اور کئی دوسرے فلسطینی قیدی صہیونی ریاست کے جبر کے سامنے بھوک ہڑتال کرنے اوراپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہے ہیں۔