دو روز پیشتر عظیم مردِ مُجاھد اور منفرد اسلوب کے داعی جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر فضیلۃ الشیخ عبدالغفار عزیز ہم سے جدا ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مرحوم مجاھد رہ نما عبدالغفار عزیز نے اپنے وطن عزیز کے مسائل کے حل اور ان کی علاقائی، عرب اور مسلم ممالک تک ترویج میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ وہ زندگی کی آخری سانس تک بالعموم عالم اسلام کے تمام مسائل بالخصوص قضیہ فلسطین کے منصفانہ حل کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ اُنہوں نے فلسطین اور اہل فلسطین کے لیے قلمی جہاد اور نصرت الاقصیٰ اور فلسطین کے لیے اپنے تعلقات کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ چاہے جماعت اسلامی کی سطح پر کانفرنسیں ہوں یا ہمارے خطے کی سطح پر کوئی دوسری سرگرمی ہو مرحوم سنہ 1990ء کے عشرے اور 2000ء کے بعد ان میں شریک اور پیش پیش رہے۔ انہوں نے ہر فورم پر زبان و قلم سے فلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کی۔
اہل فلسطین کے لیے دیگر بہت سی کانفرنسوں اور مواقع پر عبدالغفار عزیز نے آواز بلند کی وہیں سنہ 2014ء کو مینار پاکستان میں جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماع عام کے موقع پر خاص طور پر پاکستانی قیادت کی طرف سے فلسطینیوں کے حق میں منظور کی گئی قراردادیں تحریر کیں۔
انہوں نے ایک سوچ رکھنے والے علماء الشیخ ھام سعید، الشیخ ابراہیم منیر، الشیخ ابراہیم المصری، الشیخ عبدالرزاق المقری اور الشیخ عبدالھادی اوانگ جیسے مبلغین کو اس فورم پر جمع ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس موقع پر عالم اسلام کی نمائندہ دینی قیادت جمع تھی۔ بین الاقوامی علماء کانفرنس کے لیے جمعہ کا دن مقرر کیا اور کانفرنس کے لیے لاہور کی شاہی مسجد کا انتخاب کیا گیا۔ اس کانفرنس میں راقم کو بھی شرکت کا موقع ملا۔
راقم نے کانفرنس کے میزبان عبدالغفار عزیز رحمہ اللہ سے نماز جمعہ کے خطبے سے قبل اذان دینے کی درخواست کی۔ انہوں نے میری تجویز کو بہت پسند کیا اور نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ کی اجازت سے مجھے مسجد میں اذان دینے کا شرف حاصل ہوا۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوا کیونکہ فلسطین اس عظیم مرد مجاھد کے دل میں جاگزیں تھا۔ انہوں نے مائیک ہاتھ میں لیا اور اپنے مخصوص انداز میں مجمع کے جذبات کو مہمیز دیتے ہوئے استفسار کیا کہ ‘کیا آپ جانتے ہیں کہ ابھی کون یہاں پر اذان دینے کے لیے آ رہا ہے؟ تو لیجیے میں بتاتا ہوں۔ ابھی آپ مسجد اقصیٰ کے مؤذن کی آواز سنیں گے’۔
ان کے ان الفاظ نے مجمع کے ایمانی جوش اور جذبے میں اضافہ کر دیا اور انہوں نے ہاتھ بلند کر کے تکبیر کے نعرے بلند کیے۔
جہاں تک ان کے دعوتی اسلوب کا تعلق ہے تو ان کا انداز خطابت اخوان المسلمون کے مرحوم مرشد عام حسن الھضیبی رحمہ اللہ سے ملتا تھا۔ الشیخ الھضیبی کو حسن البنا رحمہ اللہ نے جماعت میں شمولیت کی دعوت دی۔ وہ جماعت میں شامل ہوئے مرشد عام کے مقام تک جا پہنچے۔ الھضیبی کی فکری پرورش اور انہیں ایک قاضی کے بجائے ایک داعی بنانے میں حسن البنا کے حسن تربیت کا کردار تھا۔ یہ حسن البنا ہی کا خاصہ تھا کہ ان کی دور اندیشی اور وسعت قلبی تھی کہ اہل علم ان کی آغوش محبت میں کھچے چلے آتے تھے۔ اس طرح اخوان کا دائرہ فکر ونظر وسعت پذیر رہا اور الھضیبی جیسے اہل علم بھی اس قافلہ سخت جاں کے راہی بن گئے۔
ایسے ہی ہمارے ممدوح عبدالغفار عزیز مرحوم جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر قاضی حسین رحمہ اللہ کا حُسنِ انتخاب تھے۔ قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے تیسرے امیر بنے۔ اس وقت عبدالغفار عزیز دوحا میں مقیم تھے۔ سنہ 1990ء کو عبدالغفار عزیز کی قطر میں قاضی حسین احمد سے ملاقات ہوئی۔ اس پہلی ملاقات ہی میں قاضی حسین احمد نے عبدالغفار عزیز کی چھپی صلاحیتوں کو پہچان لیا۔ وہ جان گئے کہ جواں سال عبدالغفار عزیز پاکستان اور جماعت اسلامی کے عرب دنیا کے درمیان رابطے کے لیے پُل کا کردار ادا کرسکتے اور جماعت کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
قاضی صاحب نے عبدالغفار عزیز کو جماعت کے مرکزی نظم میں شامل کیا۔ اُس وقت سے اپنی زندگی کی آخری سانس تک غفار عزیز نے اپنی زندگی جماعت کے لیے وقف کردی۔ وہ قطر جیسے ملک میں عیش کی زندگی ترک کر کے جماعت کی ترجمانی کی ذمہ داری پر چل پڑے۔ اُنہیں کچھ عرصے تک خلیل حامدی کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ خلیل حامدی صاحب کے انتقال کے بعد جماعت نے عبدالغفار عزیز کو امور خارجہ کے ڈائریکٹر کی ذمہ داری پر فائز کیا۔ جماعت کے ساتھ تین عشروں پر پھیلی خدمات میں عبدالغفار عزیز نے سعودی عرب، ترکی، ایران، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دوسرے مسلمان اور عرب ممالک میں نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ پاکستانی قوم کی نمائندگی کی۔
ایک عجمی ہونے کے باوجود جس روانی اور فصاحت کے ساتھ وہ عربی میں بات کرتے تھے اس پر اہل زبان کو بھی رشک تھا۔ انہوں نے لاھور منصورہ میں جماعت اسلامی کے مرکز میں قائم دارالعروبہ میں ذمہ داریاں بھی انجام دیں۔ اس کے بعد اُنہیں قاضی حسین احمد کے معاون خصوصی اور عرب امور کے حوالے سے ان کا مشیر مقرر کیا گیا۔ عبدالغفار عزیز کی شاندار ٹیم میں پروفیسر ایوب منیر اور گل زادہ شیر پائو جیسے افراد کار شامل رہے۔ موجودہ امیر جماعت سراج الحق نے اُنہیں نائب امیر کی اضافی ذمہ داری بھی سونپ دی تھی۔
جماعت اسلامی کشمیر کے سابق امیر عبدالرشید ترابی نے عبدالغفار عزیز کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں پاکستانی قوم، کشمیریوں اور فلسطینیوں کا ‘سفیر’ قرار دیا۔
عبدالغفار عزیز کی وفات ایک مخلص بھائی اور عزیز دوست کا بچھڑنا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں انبیا، صدیقین، شہدا اور نیک لوگوں کا ساتھ عطا کرے۔ عبدالغفار عزیز کی وفات بالعموم عالم اسلام بالخصوص پاکستانی قوم اور جماعت اسلامی کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔