اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے بزرگ رہ نما، فلسطینی پارلیمنٹ کے رُکن اورفلسطینیوں میں یکجہتی اور اتحاد کے علم بردار رہ نما الشیخ حسن یوسف کو ایک بار پھر اسرائیلی زندان میں ڈال دیا گیا۔ 64 سالہ فلسطینی رہ نما الشیخ حسن یوسف اپنی زندگی کے 23 سال صہیونی زندانوں میں قید کاٹ چکے ہیں۔ بار بار گرفتاری اور بلا جواز قید کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
الشیخ حسن یوسف کی گرفتاری ایک ایسے وقت میں عمل میں لائی گئی ہے جب وہ حالیہ ایام میں فلسطینیوں کے درمیان اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ ان کی گرفتاری کے ذریعے صہیونی دشمن نے فلسطینی قوتوں کے درمیان اتحاد کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
چونسٹھ سالہ حسن یوسف فلسیطنی پارلیمنٹ کے رکن ہیں۔ اسرائیل نے انہیں زیادہ سے زیادہ حراست میں رکھنے کی مجرمانہ پالیسی اپنا رکھی ہے۔ انہیں اگر چند ماہ ہفتے کے لیے جیل سے رہا کیا جاتا ہے تو کئی ماہ تک پابند سلاسل رکھاجاتا ہے۔
وہ اپنی قید کا تقریبا ایک تہائی عرصہ صہیونی زندانوں میں کاٹ چکے ہیں۔ طویل اسیری اور ظلم برداشت کرنے کے باوجود صہیونی دشمن ان کے عزم کو شکست نہیں دے سکے اور نہ ہی ان کے حوصلے پست کیے جا سکے ہیں۔ رہائی کے بعد وہ تین ماہ بھی اپنے گھر پر نہیں رہے۔ انہیں غرب اردن میں فلسطینی سیاسی ، مذہبی اور مزاحمتی رہ نمائوں کا مقبول رہ نما قرار دیا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ صہیونی دشمن ان کی عوامی مقبولیت سے خائف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں بار بار حراست میں لینے کی مجرمانہ پالیسی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
الشیخ حسن یوسف کو جمعہ دو اکتوبر2020ءکو گرفتار کیا گیا۔ ان کی گرفتاری رام اللہ کے نواحی علاقے بیتونیا سے ان کے گھر سے عمل میں لائی گئی۔
مقامی فلسطینی ذرائع نے بتایا کہ جمعہ کو علی الصباح قابض صہیونی فوج نے ان کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کے گھر میں گھس کرانہیں حراست میں لے لیا گیا۔
الشیخ حسن یوسف کو اسرائیلی فوج نے 10 ستمبر عوفر نامی فوجی مرکز میں طلب کیا اور انہیں خبردار کیاگیا کہ وہ عوامی اجتماعات میںشرکت بند کریں اور فلسطینی سیاسی قیادت سے ملاقات کا سلسلہ روکیں۔
انٹیلی جنس مرکز میں پیشی کے بعد حماس رہ نما الشیخ حسن یوسف کا کہنا تھا کہ اسرائیلی انٹیلی جنس حکام نے ان سے فلسطینی جماعتوں حماس اور فتح کے درمیان بڑھتی قربت اور اتحاد کی کوششوں کے بارے میں پوچھ تاچھ کی۔
الشیخ حسن یوسف کا کہنا تھا کہ صہیونی حکام نے انہیں خبردار کیا کہ وہ فلسطینیوں میں مصالحت کی کوششیں ترک کریں۔ ساتھ ہی کہا کہ اسرائیل فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کی کوششیں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
الشیخ حسن یوسف کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کے درمیان مصالحت کی کوششوں کو ناکام بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کے درمیان اختلافات کے بیج بو رہا ہے اور فلسطینیوں کے درمیان اتحاد کی کاوشوں سے خائف ہے۔
اسرائیلی ریاست کی طرف سے دبائو کے باوجود الشیخ حسن یوسف نے فلسطینیوں کے درمیان اتحاد کی کوششیں جاری رکھیں جس پر صہیونی دشمن نے ان کی زبان بند کرنے کے لیے انہیں ایک بار پھر حراست میں لے لیا۔
الشیخ حسن یوسف کو 23 جولائی 2020ء کو مسلسل 15 ماہ قید کے بعد رہا کیا گیا تھا۔ یہ پندرہ ماہ انتظامی قید پر مشتمل تھے۔
الشیخ حسن یوسف غرب اردن میں حماس کے سرکردہ رہ نمائوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہیں سنہ 1992ء کو فلسطین سے بے دخل کرکے لبنان بھیج دیا گیا تھا۔ سنہ 2006ءجو فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں وہ حماس کی ٹکٹ پر بھاری اکثریت سے فلسطین کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
انہوں نے اسرائیل کے زندانوں میں 23 سال قید کاٹی جس میں سے تین سال انتظامی قید اور 20 سال مستقل حراست کا عرصہ شامل ہے۔