اسرائیلی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں پرمظالم ڈھانے کے لیے دو درجن سے زاید عقوبت خانے قائم کیے گئے ہیں جن میں ہزاروں فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔ آئے روز فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد ان جیلوں میں ڈالی جاتی ہے جہاں ان پر ظلم وبربریت اور تشدد کے پہاڑے توڑے جاتے ہیں۔ صہیونی زندانوں میں قید فلسطینیوں پرمظالم کی مختلف شکلیں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے صہیونی ریاست کے قیدیوں کو سزا دینے کے ایک نئے اور ہولناک ہتھکنڈے کا پردہ چاک کیا ہے۔ بہ ظاہر یہ قیدیوں کو دی گئی ایک سہولت ہے مگر اسے سہولت کے بجائے قیدیوں کو اذیتیں پہنچانے کا ایک نیا حربہ بنایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں قائم کی گئی ‘کینٹینیں’ یا کیفے بہ ظاہر تو قیدیوں کو ان کی ضروری اشیا کی فراہمی کا ایک ذریعہ ہونا چاہیے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسرائیلی زندانوں میں قائم کی گئی کینٹینیں قیدیوں کو بلیک میل کرنے اور انہیں نفسیاتی اذیت پہنچانے اور ان کی جیبیں خالی کرنے کا ایک مجرمانہ حربہ بن چکا ہے۔
اسرائیل کی ‘ڈوچ’ نامی ایک کمپنی بھی فلسطینی قیدیوں کو ان کی ضروریات کی فراہمی کے لیے کام کرتی ہے۔ قیدیوں کے اہل خانہ اپنے پیاروں کو پیسے پہنچانے کے لیے اس کمپنی کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کمپنی میں فلسطینی قیدیوں کے باقاعدہ مالی کھاتے بنے ہوئے ہیں۔ فلسطینی جیل کی کینٹین سے کوئی چیز خرید کرتے ہیںتو یہ کمپنی اس کھاتے سےکینٹین کو رقم ادا کردیتی ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی حکام نے اس کمپنی پر دبائو ڈالا کہ وہ قیدیوں کےاقارب کی طرف سے مزید رقوم جمع کرنا روک دے اور جمع کی گئی رقوم کا ایک بڑا حصہ وپس کردیا جائے۔
اس خبرکے سامنے آنے کے بعد کلب برائے اسیران جو فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والا ایک نجی ادارہ ہے نے خبردار کیا کہ اگر کینیٹین سے منسلک کھاتے بند کیے جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں صہیونی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔
حال ہی میں اسرائیلی ریاست کے قیدیوں کی رقم کی امانت رکھنے والے بنک کو بتایا گیا کہ حکومت نے فوج داری کیسز میں قید فلسطینیوں کے کھاتے بند کردیے ہیں۔
اسیران کلب نے اسرائیلی حکام کے اس حربے کو خطرناک اور سفاکانہ قرار دیتے ہوئے کہا اگر ایسا کیاجاتا ہے تو اس کے نتیجے میں اسرائیلی جیلوں میں پابند سلاسل فلسطینی اپنی 60 فی صد بنیادی ضروریات سے محروم ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ جیلوں میں قید کیے گئے فلسطینیوں کو ان کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا جاتا ہے اور وہ بعض ضروری اشیا اپنی جیب سے جیل کی کینیٹنوں سے خرید کرتے ہیں۔ ان کینیٹنوں پر قیدیوں کو کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری اشیا بھی مل جاتی ہیں۔ یہ سہولت صرف قیدیوں تک محدود نہیں ہوتی بلکہ دیگر اداروں میں بھی کینٹین کی سہولت موجود ہوتی ہے۔
فلسطینی انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں قائم کی گئی کینیٹیں سالانہہ 10 کروڑ شیکل کی رقم قیدیوں سے بٹورتی ہیں۔
تجزیہ نگار عبدالناصر فروانہ کا کہنا ہے کہ قیدیوں کی کینٹین کی سہولت ختم کرنا اسیران کو مزید مشکلات سے دوچار کرنے مترادف ہے اور اس کے نتیجے میں اسیران کی مشکلات میں کئی پہلوئوں سے اضافہ ہوجائے گا۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فروانہ نے کہا کہ اسرائیلی زندانوں میں قیدیوں کی حالت پہلے ہی کافی خراب ہے۔ کینیٹین کی سہولت سلب کرنا اور کینیٹٰن کو قیدیوں کو نفسیاتی تشدد کےلیے استعمال کرنا ایک جنگی حربہ ہے۔ اس کے نتیجے میں قیدیوں کی مشکلات اور ان کے مسائل میں غیرمعمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔