فلسطینی شہریوں کے خلاف قابض اسرائیلی فوج آئے روز ایسے ممنوعہ اور مہلکت ہتھیاروں کا اندھا دھند اور بے دریغ استعمال کررہی ہے جو عالمی قوانین کے تحت سختی سے ممنوع ہیں۔ فلسطینی شہریوں کے گھروں میں گھسنے، دھاووں کے موقعے پر اور فلسطینیوں کے احتجای مظاہروں کے موقعے پر انہیں منتشر کرنے کے لیے قابض فوج ‘صوتی بم’ استعمال کرتی ہے۔
اگرچہ پوری دنیا میں صوتی بم اور آنسوگیس کے شیل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں مگر اسرائیلی فوج جس نوعیت کے صوتی بم اور آنسوگیس کے گولے استعمال کرتی ہے وہ اپنی شدت اور ہولناکی میں مہلک ہتھیاروں سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں بار بار اسرائیل کے ان ہتھیاروں کے استعمال پر کڑی تنقید کرچکی ہیں۔
یہ ہتھیار کتنا خطرناک اور جان لیوا ہوسکتا ہے اس کی تازہ مثال گذشتہ جمعہ کے روز غرب اردن میں پیش آنے والے ایک واقعے سے لی جاسکتی ہے جس میں قابض فوج نے ایک فلسطینی ڈاکٹر 54 سالہ نضال اکرم جبارین کو صوتی بم مار کرشہید کردیا تھا۔
صوتی بم جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اپنی خوفناک آواز کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ کم زور دل افراد کے لیے یہ بم فوری مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ اس طرح کے بموں کے بےدریغ استعمال سے بڑٰ تعداد میں فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ 18 ستمبرکو پیش آنے والا واقعہ اس ہتھیار کے مہلک ہونے پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔
مہلک صوتی بموں کے استعمال میںقابض صہیونی فوج بین الاقوامی اداروں کے معیار اور شرائط کو کھلے عام نظرانداز کرچکی ہے۔
ڈینٹل ڈاکٹر نضال اکرم جبارین کو جنین شہر میں دیوار فاصل کی دوسری طرف برطعہ کے مقام پر اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنا کلینک بند کرکے گھر کو لوٹ رہے تھے۔
صوتی بم رات کے وقت پھٹنے سے غیرمعمولی روشنی اور خوفناک آواز پیدا کرتا ہے اور عموما کم زور دل افراد اس کے دھماکے سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔
فلسیطن میں انسانی حقوق مرکز کی رپورٹ کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے دانستہ طور پر ڈاکٹر جبارین کو صوتی بم سے نشانہ بان کر شہید کیا۔ صہیونی فوج کو اندازہ ہے کہ یہ بم انتہائی خطرناک اور خوفناک ہے جو جان لیوا ہے مگر اس کے باوجود اس کے استعمال پر کوئی روک ٹوک نہیں۔
صوتی بم کیا ہے اور یہ کیسے بنایا جاتا ہے؟
صوتی بم عام طورپر افواج کے پاس ہوتا ہے جو مظٍاہرین کو منتشر کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں میگنیشیم نامی دھات کی مقدار زیادہ پائی جاتی ہے جوپھٹتے وقت زور دار آواز پیدا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اپنے قریب بجلی کے جھٹکے کی ایک لہر پیدا کرتی ہے اور چند سیکنڈز کے اندر اندر یہ بم روشی اور آواز کے ساتھ پھٹ پڑتا ہے۔ اس کے دھماکے کی شدت 160 سے 180 ڈیسیپل ہوتی ہے جو انسانی کان کے پردے پھاڑ دینے کے لیے کافی ہے۔
صوتی بم بہرے افراد کے قریب پھوڑے جاتے ہیں تاکہ ان کے کان میںجم جانےوالے سائل مادے کو نکالنے کے لیے ایک جھٹکا دیا جاسکے مگر اس کے نتیجے میں انسان اپنا توازن کھو سکتا ہے۔
انسانی حقوق مرکز کے مطابق سنہ 2010ء کے بعد اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف صوتی بموں کے استعمال سے 7 بچوں سمیت 9 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ قابض فوج غزہ کی پٹی کی سرحد پر ہونے والے مظاہروں کے شرکا کو منتشر کرنے کے لیے ان پر ان مہلک صوتی بموں کا استعمال کرتی رہی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی میڈیکل ایسوسی ایشن کاکہنا ہے کہ صوتی بم زیادہ تر مہلک ہتھیار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہوا کا دبائو اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ قریب گرنے والے اس بم سے انسان کی قوت سماعت کچھ دیر کے لیے مکمل طور پر ختم ہوجاتی ہے۔
اس کے نتیجے میں کانوں کے باریک پردے پھٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
یہ جسم کے اعصابی نظام کو بری طرح متاثر کرسکتا ہے۔
زو دار دھماکہ کسی بھی شخص کو زمین پر گرانے اور اسے زخمی کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن احمد ابو زھری نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ فلسیطنی قوم کے خلاف صہیونی فوج کا صوتی بموں جیسے مہلک ہتھیاروں کا استعمال بین الاقوامی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ یہ ہھتیار فوری طورپر لوگوں کے لیے جان لیوا ثابت ہوچکا ہے مگر اس کے باوجود قابض فوج اس کے استعمال کو جاری رکھے ہوئے ہے۔