فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں حال ہی میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میںآیا ہے۔ جہاںایک طرف نئے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں وہیں صحت یاب ہونے والوں کا تناسب بھی حوصلہ افزا ہے۔ کرونا کی وبا کا شکار ہونے اور اس کے بعد صحت یاب ہونے والے 45 سالہ ٹریفک پولیس سارجنٹ ایاد العربید نے بیماری کے بارے میں مرکزاطلاعات فلسطین سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ العربید ایک ہفتہ قبل بیماری سے صحت یاب ہوئے اور وہ مسلسل تین ہفتے تک اس وبا کا شکار رہے ہیں۔
العربید سے پہلا سوال بیماری کی علامات کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ اسے شدید نوعیت کے زکام کا عارضہ لاحق ہوا۔ بیماری کے دوران وہ فیس بک پراپنے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہا۔ اس نے بتایا کہ جیسے جیسے دن گذرتے گئے نزلہ زکام، سردرد اور جسم میں اکتاہٹ میں اضافہ ہوتا گیا۔ شروع میں ہلکا ہلکا بخار تھا مگر چند روز کے اندر بخار نے غیر مسبوق حملہ کردیا۔ ہڈیوں میں درد شروع ہوگیا۔ اس کا کہنا ہے کہ شدید بخار اور تکلیف میں بھی میں اپنے دوستوںکے ساتھ فیس بک پر رابطے میں رہا۔ میرے دوست میری باتوں کا تمسخر اڑاتے اور مجھے کامیڈین قرار دیتے۔
جب فلسطینی وزارت صحت نے غزہ کی پٹی میں قرنطینہ مراکز سے باہر کرونا کے مریض کی تصدیق کی تو العربید نے مفت ہنگامی کال نمبر 103 پر رابطہ کرکے اپنی کیفیت کے بارے میںمطلع کیا۔ فون کے کچھ ہی دیر بعد محکمہ صحت کا عملہ اس کے گھر پرتھا۔ عملے نے کے خون کانمونہ لیا جسے کرونا ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بھیج دیا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں العربید نے بتایا کہ خون کا نمونہ لینے کے 24 گھنٹے بعد وزارت صحت نے اسے بتایا کہ اس کی رپورٹ مثبت آئی ہے اور وہ کرونا کا شکار ہے۔ تب تک حکومت نے اسے گھر پر رہنے کی تاکید کی اور جلد ہی اسے قرنطینہ مرکز منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ العربید نے خود کو خاندان کے دوسرے افراد سے الگ کرلیا اور وہ شمالی غزہ میں جبالیا پناہ گزین کیمپ میں اپنے گھر میں ایک کمرے میں الگ تھلگ ہوگیا۔
اگلے روز اسے جنوبی غزہ میں ترکی کے قائم کردہ فرینڈشپ اسپتال منتقل کردیا گیا جہاں اس نے بیماری کی حالت میں کچھ دن گذارے۔ وہاں سے وزارت صحت نے اسے مزید بہتر علاج کے لیے یورپی اسپتال منتقل کیا جہاں پر اسے کرونا کے مریضوں کے لیے مختص وارڈ میں داخل کردیا گیا۔ اس اسپتال میں اسے روزانہ کی بنیاد پر ضروری طبی امداد فراہم کی جاتی رہی۔
اس دوران اس کی اہلیہ، تین بچوں اور بھائی کی اہلیہ کے کرونا کے ٹیسٹ لیے گئے۔ اس کے بعد تین بھتیجے بھتیجوں کا کرونا کا ٹیسٹ لیا گیا تاہم خوش قسمتی سے ان میں سے کوئی بھی کرونا کا مریض نہیں تھا۔
صحت بہتر ہونے کے بعد اسے دیر البلح میں ایک اسکول میں قائم قرنطینہ مرکز منتقل کردیا گیا۔ وہاںپر اس کی اس کے بیوی بچوںکے ساتھ بیماری کے دوران پہلی ملاقات ہوئی۔
اپنی بیماری کے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے العربید نے کہا کہ وزارت صحت کی طرف سے اسے ایک ہفتےتک مکمل دوائی دی گئی۔ تاہم یہ کرونا کے بچائو کی دوائی تھی۔
سارجنٹ العربید نے کہا کہ کرونا کی وجہ سے لوگوں میں خوف، ڈی پریشن اور مایوسی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ تاہم بیماری میں حوصلہ بلند رکھنا اور ہمت قائم رکھنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ساتھ 400 افراد قرنطینہ مرکز میں تھے۔ ان میں میں پہلا شخص ہوں جو اس بیماری سے نجات پانے والوں میں شامل ہوں۔