ترکی کی وزارت خارجہ نے امریکا کی جانب سے اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کی قیادت کی صدر طیب ایردوآن سے ملاقات پر اعتراض کو مسترد کردیا ہے۔ انقرہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے حماس رہ نمائوںکی صدر سے ملاقات پر اعتراض اور اس سے متعلق متنازع بیان ترکی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ انقرہ کی اپنی آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی ہے۔ ہم کسی سے ڈکٹیشن لے کر کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ حماس کی قیادت کی صدر ایردوآن سے ملاقات قضیہ فلسطین کے حوالے سے ترکی کے اصولی موقف کا نتیجہ ہے۔ ترکی فلسطینی قوتوں کے ساتھ متوازی تعلقات چاہتا ہے اور کسی دوسرے ملک کے کہنے پر فلسطینیوں کو نظرانداز نہیںکرے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا کی طرف سے حماس قیادت کی صدر ایردوآن سے ملاقات پر اعتراض حدود سے تجاوز کرنے اور ترکی کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی حماس کو فلسطینی قوم کی منتخب اور نمائندہ جماعت تسلیم کرتا ہے۔ غزہ میں حماس کی حکومت عوام کی مرضی اور ان کے ووٹوں سے جمہوری طریقے سے منتخب ہونے کے بعد قائم ہوئی ہے۔ کسی کو اس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ امریکا کی پالیسی سے خطے میں امن اور استحکام کو آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔
بیان میں امریکا سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں غیر متوازن پالیسی کے بجائے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
خیال رہے کہ امریکی وزارت خارجہ نے حماس کے وفد کی ترک صدر سے ہونے والی ملاقات پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔
حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ اور نائب صدر صالح العاروری نے گذشتہ ہفتے کو استنبول میں ترک صدر سے ملاقات کی تھی۔
امریکا نے خبردار کیا ہے کہ حماس کی قیادت سے تعلقات پر ترکی کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ وہ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے اور امریکا کے ساتھ یورپی یونین نے بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرا ردے رکھا ہے۔ اس لیے ترکی کو حماس کے حوالے سے امریکا اور یورپ کی پالیسی پرعمل درآمد کرنا چاہیے۔