شنبه 16/نوامبر/2024

غزہ سے انخلاء کے 15 سال بعد بھی صہیونی ریاست کے گھناونے جرائم جاری

جمعہ 21-اگست-2020

فلسطینیوں کی طویل مزاحمت اور جدو جہد کے نتیجے میں وسط اگست 2005ء کوصہیونی ریاست نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکالنے اور اس علاقے میں قائم کردہ یہودی بستیاں ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ غزہ پر مسلسل 38 سال تک قبضہ جاری رکھنے کے بعد کیا گیا۔ اگرچہ صہیونی فوجیں غزہ سے نکل چکی ہیں اور غزہ سے صہیونی حکام کےانخلا اور یہودی بستیوں کے ختم کیے جانے کےباوجود گذشتہ 15 سال سے صہیونی فوج کے نہتے فلسطینیوں کےخلاف گھنائونے جرائم کا سلسلہ جاری ہے۔ صہیونی فوج کی طرف سے غزہ کی پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری اطراف سے مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔

غزہ کا علاقہ گذشتہ 14 سال سے اسرائیلی فوج کے محاصرے میں ہے اور اسے فلسطینیوں‌نے آفت زدہ علاقہ قرار دیا ہے۔ غزہ کے باہر سے کوئی بھی چیز صہیونی ریاست کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔ صہیونی ریاست نے غزہ کی پٹی میں تین تجارتی گذگاہیں بند کر رکھی ہیں اور غزہ کو بنیادی انسانی ضرورت کی اشیا تک فراہم کرنے پر قدغنیں عاید کی گئی ہیں۔

غزہ کی بحری، بری اور فضائی ناکہ بندی کرکے صہیونی ریاست نے غزہ کے عوام کا مستقبل تاریک اور ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ صہیونی دشمن غزہ کی پٹی کے دو ملین عوام کو غزہ کے اندر اور باہردونوں طرف سے حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی کرکے اس کے اندر عوام کو گھٹن اور معاشی مشکلات سےدوچار کیا گیا ہے اور غزہ کےباہر سے صہیونی فوج کے جنگی طیارے، ٹینک اور توپیں فلسطینیوں پر آگ برسا رہی ہیں۔ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی پر تین بڑی جنگیں مسلط کرچکی ہے جن میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہید اور زخمی ہونے کے بعد اپاہج اور معذور ہوچکے ہیں۔

فلسطینی پارلیمنٹ کے رکن اور غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ کمیٹی کے سربراہ جمال الخضری نے کہا کہ صہیونی ریاست نے غزہ سے صرف برائے نام انخلا کیا ہے۔ صہیونی فوج کا غزہ کی پٹی کے تمام داخلی اور خارجی راستوں اور وسائل پر بدستور قبضہ ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الخضری نے کہا کہ صہیونی ریاست غزہ کے عوام کی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ غزہ کی معیشت اور اقتصادیات کو تباہ کردیا گیا۔ اس کی تمام بری، بحری اور فضائی راہ داریوں پر صہیونی فوج کا قبضہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کی مسلسل ناکہ بندی کے نتیجے میں معیشت کی تباہی نے غربت اور بے روزگاری میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔
صہیونی ریاست نے غزہ کی پٹی سے 21 یہودی کالونیاں ختم کی تھیں اور فوج کو وہاں سے نکال دیا تھا تاہم اس کے باوجود صہیونی دشمن کے غزہ کے عوام کے خلاف گھنائونے جرائم کا سلسلہ بدستور جاری و ساری ہے۔

تجزیہ نگار ابراہیم المدھون نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا انخلا حقیقی معنوں میں فلسطینیوں مزاحمتی قوتوں کی فتح ہے مگر دوسری طرف صہیونی ریاست نے آج تک اس انخلا کو عملی طورپر قبول نہیں کیا۔ غزہ کی مسلسل ناکہ بندی اور اس علاقے کےعوام پرعرصہ حیات تنگ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل غزہ کےعوام کو ستانے کی پالیسی سے باز نہیں آیا۔

 

مختصر لنک:

کاپی