لبنان کے دارالحکومت بیروت میں منگل کی شام جو قیامت برپا ہوئی اس نے امریکا کے 2001ء کے حملوں اور سنہ 1945ء کے جاپان کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ہونے والے ایٹمی حملوں کی یاد تازہ کردی۔ چار اگست منگل کی شام مقامی وقت کے مطابق چھ بجے جنوبی بیروت کی بندرگاہ میں ایک عمارت میں یکے بعد دیگر کئی دھماکے ہوئے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان دھماکوں میں وہاں پر ذخیرہ کردہ 2700 ٹن سے زاید دھماکہ خیز مواد پھٹا ہے جس نے پورے شہر کو تباہی سے دوچار کیا ہے۔ ان دھماکوں کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کی آواز 110 کلو میٹر دور قبرص میں بھی سنائی دی۔ ان تک کی اطلاعات کے مطابق بیروت دھماکوں میں 100 سے زاید افراد شہید اور چار ہزار سے زاید زخمی ہوئے ہیں۔ لبنانی حکومت نے بیروت دھماکوں کے بعد شہر کو آفت زدہ علاقہ قرار دے کر ہنگامی حالت نافذ کی ہے۔
اگرچہ بیروت دھماکوں کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی اور نہ ہی اس ھوالے سے کسی ملک نے کوئی دعویٰ کیا ہے لبنان میںہونے والی اس طرح کی کسی بھی واردات کے پیچھے ممکنہ طورپر اسرائیل کا ہاتھ ہوسکتا ہے کیونکہ ان دھماکوں کا سب سے بڑا ‘مستفید’ اسرائیل ہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود ان دھماکوں کے حوالے سے اب تک متضاد آرا آ رہی ہیں۔
لبنان کی پوری قوم اس وقت مصیبت سے دوچار ہے۔ مگر لبنان کے بعض سیاسی حلقے اس طرح کے واقعات کو پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کررہے ہیں حالانکہ لبنان پہلے ہی سیاسی، اقتصادی اور معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیروت دھماکوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دھماکے کسی بم حملے کا نتییجہ بھی ہوسکتے ہیں۔ انہوںنے اس حملے کو خوفناک قرار دیا جب کہ امریکی عسکری عہدیدار بھی اسے ممکنہ طور پر کوئی بم حملہ قرار دیتے ہیں۔
امریکی ماہرین اور عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ دھماکے کی جگہ کی دھماکوں کے بعد کی تصاویر، ویڈیوز اور وہاں سے اٹھنے والا دھواں اور آگے کے شعلے، ان کی ضخامت، ان کا بھورا رنگ اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ ایک کیمیائی دھماکہ تھا۔ یہ طویل فاصلے سے داغے جانے والے میزائل کا بھی نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ماہرین نے لبنان کے سرکاری موقف پر شبے کا اظہار کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ دھماکہ المونیم نائیٹریٹ کے پھٹنے سے ہوئے۔
کیا ان حملوں میں اسرائیل ملوث ہے؟
بیروت دھماکوں کے حجم، ان کی خوفنانی، تباہی اور دیگر تمام پس مناظر کے ساتھ ساتھ لبنانی میں ایک نئی خانہ جنگی کے خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ بہت سے مبصرین یہ خیال ظاہر کررہے ہیں کہ ان حملوں میں اسرائیل کے ملوث ہونے کو خارج ازماکن قرار دیا نہیں دیا جاسکتا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے بار ہا بیروت بندرگاہاور بیروت ہوائی اڈے سمیت کئی دوسرے مقامات پر حملوں کی دھمکیاں دیں۔ اسرائیل نے بار بار یہ دعویٰکیا تھا کہ بیروت بندرگاہ اور دیگر مراکز میں حزب اللہ نے ایرانی اسلحہ کے گودام بنا رکھے ہیں۔
حال ہی میں سرائیلی آرمی چیف نے بیروت بندرگاہ سمیت کئی دوسرے مقامات کا نام لے کرانہیں حملوں کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔ یہ دھمکی اسرائیل کے ملوث ہونے کے خدشات کو تقویت دیتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بیروت حملےکسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ کسی طے شدہ منصوبے کا نتیجہ ہیں۔
بیروت دھماکوں سے کچھ دیر قبل اسرائیلی طیاروں نے شام میں ‘دشمن عناصر’ کے ٹھماکوں پر بم باری کی۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے ایک نبیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج نے شام سےوادی گولان کے راستے حملے کرنے والے ایک سیل کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ شام میں حملے حزب اللہ کے لیے پیغام ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی ماہ سے اسرائیلی فوج لبنان کی فضائی اور بری حدود کی خلاف ورزی کررہی ہے۔
اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کئی صوتی ریکارڈنگ اور ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں ایک جنگی طیارے کو لبنان کی بندرگاہ کی طرف میزائل داغتے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ لبنانی عوام اور عسکری ماہرین میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ اسرائیل نے لبنان کے موجودہ داخلی بحران اور معاشی ابتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بندرگاہ کو نشانہ بنایا ہے۔
اسرائیلی فوج کے نقشے اور شبہات
تیسری اہم بات اسرائیلی فوج کے ترجمان افیخائی ادرعی کی طرف سے جاری کردہ ایک سال قبل کا نقشہ ہے جس میں صہیونی فوج نے لبنان میں ان مقامات کی نشاندہی کی ہے جہاں پر مبینہ طور پر ایران سے لایا گیا اسلحہ، میزائل اور گولہ بارود ذخیرہ کیے جاتے ہیں۔ اس نقشے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ بیروت ہوائی اڈہ، بندرگاہ اور دمشق کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ایرانی اسلحہ کی منتقلی کے راستے ہیں اور وہاں پر موجود میزائلوں کو تباہ کرنے کے لیے کسی بھی وقت حملہ کیا جا سکتا ہے۔
اس نقشے میں بیروت کا ہوائی اڈہ اور بیروت بندرگاہ بھی شامل ہےجو منگل کی شام خوفناک دھماکوں کے نتیجے میں تباہ ہو گئی۔
اسرائیلی فوج نے مصنوعی سیارے کی مدد سے لی گئی تصاویر میں بیروت میں حزب اللہ کے مبینہ اسلحہ گوداموں کی نشاندہی کی گئی۔ ان نقشوں میں رفیق حریری بین الاقوامی ہوائی اڈہ، اس کے بالمقابل شاہراہ، بیروت بندرگاہ کو ہٹ لسٹ پر بتایا گیا اور کہا گیا تھا کہ ان مقامات حزب اللہ کے میزائل اور دیگر اسلحہ بھاری اسلحہ ذخیرہ کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے دیسی ساختہ سادہ میزائلوں کو پیچیدہ میزائلوں میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہونے والی جدید میشنری کی 17 ستمبر 2018ء کو لبنان منتقلی کی کوشش ناکام بنائی تھی۔