یکشنبه 04/می/2025

اسرائیل میں مظاہرے، کیا نیتن یاھو کا سیاسی دھڑن تختنے ہونے والا ہے؟

منگل 28-جولائی-2020

بنجمن نیتن یاھو کئی سال سے اسرائیل میں تواتر کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے عہدے فائز چلا آ رہا ہے۔ نیتن یاھو نے اپنےاقتدار کو مضبوط بنانےکے لیے دوسری ہم خیال سیاسی جماعتوں کو بھی اپنا اتحادی بنایا۔ مگر اس وقت کرونا کے بجران سے نمٹنے میں ناکامی اور کرپشن کیسز کی وجہ سے نیتن یاھو کے خلاف ملک گیر احتجاج جاری ہے۔ اس احتجاج نے نیتن یاھو کا سیاسی مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگ سڑکوں پرنکل کرنیتن یاھو کے خلاف احتجاج کرتے اور ان سے استعفا مانگتےہیں۔

دوسری طرف نیتن یاھو کو اپنے خلاف کرپشن، خیانت اور دھوکہ دہی پرمبنی مقدمات کے ممکنہ عدالتی فیصلوں سے بھی خوف لاحق ہے اور مختلف حیلوں بہانوں سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں اور مقدمات سے بچنے کے لیے سیاسی تحفظ کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔
ماہرین اور اسرائیلی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ اس وقت نیتن یاھو کے لیے اہم بات عدالت کا سامنا کرنے سے فرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ تحلیل کرنے اور دوبارہ انتخابات کرانے کی بات کرتے ہیں۔

دوسری طرف اسرائیلی ریاست کےگلی محلے میں نیتن یاھو کی کرپشن اور نا اہلی کے چرچے ہیں اور ہزاروں افراد نیتن یاھو کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو ملک میں جاری اقتصادی بحران پرقابو پانے اور کرونا کی وبا کو کنٹرول  کرنے میں بری طرح‌ناکام رہے ہیں۔ اقتصادی بحران کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ صہیونی ریاست میں اس وقت بے روزگار افراد کی تعداد ایک ملین سے زاید ہوچکی ہے۔ اسی طرح کرونا کی وبا کے تیزی کے ساتھ پھیلائو کے نتیجے میں اقتصادی بحران کے مزید گھمبیر ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کا بدترین بحران پیدا ہونے لگا ہے۔

عوام کے مطالبات کیا ہیں؟
 نیتن یاھو نے اندرون ملک سیاسی بحران اور اپنے خلاف ہونے والے مظاہروں سے توجہ ہٹانے کے لیے  سیاسی مخالفین کے خلاف کیچڑ اچھالنے کی پالیسی اپنائی۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ نیتن یاھو کے خلاف زور پکڑتے احتجاج نے یہ واضح کردیا ہےکہ مسٹر یاھو کا اس کی عوام میں اب کوئی مقام باقی نہیں رہا ہے اور ہر دوسرا شخص اس کے استعفے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

تل ابیب میں نیتن یاھو کی رہائش گاہ کے قریب شاہراہ بالفور پر رواں ہفتے ہزاروں افراد نے جلوس نکالا اور نتین یاھو کےگھر کی طرف مارچ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ نیتن یاھو ملک میں اقتصادی بحران اور کرونا کی وبا پرقابو پانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس لیے انہیں اب اقتدار پر فائز رہنے کا کوئی حق نہیں۔

تجزیہ نگار محمد مصلح کا کہنا ہے کہ سنہ 2011ء کے بعد نیتن یاھو کے لیے موجودہ احتجاج سب سے بڑا چیلنج بن کر سامنے آ رہا ہے۔ موجودہ حالات میں جیسے جیسے کرونا کی وبا پھیل رہی ہے نتین یاھو کے ہاتھ سے ملک کے اقتصادی اور صحت کے مسائل کے حل کی کوششیں نکل رہی ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت اسرائیل کے داخلی سیاسی اور سماجی حالات بہت مختلف ہیں۔ نیتن یاھو سیاسی طورپر کمزور ہوچکے ہیں۔ ان کی اسرائیلی ریاست کو چلانے کی صلاحیت اور انتظامی کارکردگی مسلسل بگڑ رہی ہے اور ان کے اسرائیل کو ناقابل تسخیر بنانے اور اسے محفوظ قلعہ بنانے کے دعوے بکھر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ نیتن یاھو کے خلاف کرپشن کیسز نے بھی یاھو کے اقتدار کو کمزور کیا ہے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ نیتن یاھو اور ان کے خاندان کو کرپٹ اور چور خیال کرتا ہے۔

اندرونی بحران سے توجہ ہٹانے کے لیے نتین یاھو بار بار شام میں بمباری کرا رہا ہے۔ ایران کے خلاف آئے روز زہر اگل رہا ہے اور لبنان پر چڑھائی کے لیے فوج کو تیار کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس سارے پروپیگنڈے کا مقصد ملک میں ہونے والے احتجاج سے عوام اور عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی