جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی مزاحمت کے خلاف افواہوں کا بازار گرم ،پس پردہ مقاصد

جمعرات 16-جولائی-2020

جب سے فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے غزہ کی پٹی میں صہیونی دشمن کے خلاف طاقت کے توازن کے نئے اصول قائم کرنا شروع ہیں تب سے جنگ ہو یا امن صہیونی دشمن اور اس کے خیر خواہوں کی طرف سے مزاحمت کے خلاف افواہوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ان افواہوں کے پس پردہ فلسطینی مزاحمتی اور تحریک آزادی کےلیے سرگرم قوتوں کو کمزور کرنا، ان کے حوصلے پست کرنا اور انہیں بدنام کرتے ہوئے فلسطینی قوم میں ان کی ساکھ مجروح کرنا ہے۔

اسرائیلی ریاست اور اس کی پوری مشینری فلسطینی سماج اور عوام میں مزاحمت کےحوالے سے زہر کے بیج بونے اور مزاحمتی پروگرام کو کمزور کرنےکے لیے تمام حربے استعمال کررہی ہے۔ مزاحمت کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرنا اور عوام میں مزاحمتی قوتوں کے خلاف نفرت پیدا کرنا صہیونی دشمن کے ابلاغی، سیاسی اور دیگر اداروں کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے خلاف نفرت پر اکسانے کے لیے نہ صرف اپنے ابلاغی اور نشریاتی اداروں کو استعمال کررہا ہے بلکہ صہیونی ریاست کی خیرخواہی کا دم بھرنے والے عرب ممالک بھی فلسطینی مزاحمتی تنظیموں ، مزحمتی شخصیات اور اداروں کے خلاف صہیونی ریاست کی ترجمانی ، دروغ گوئی اور عوام میں مزاحمت کے خلاف زہر بھرنے میں پیش پیش ہے۔

حال ہی میں اسرائیلی میڈیا اور بعض عرب ممالک نے یہ دعویٰ کیا کہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کےعسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کا ایک فیلڈ کمانڈر اپنے بھائی کے ہمراہ غزہ سے سمندر کے راستے اسرائیل فرار ہوگیا ہے۔ ان افواہوں میں دعویٰ کیا گیا کہ حماس کمانڈر اپنے ساتھ اہم دستاویزات اور تنظیم کے بارے میں حساس نوعیت کی معلومات بھی لے گیا ہے اور اسے اسرائیلی فوج کی طرف سے فرار میں مدد فراہم کی گئی ہے۔ ساتھ ہی دعویٰ کیا گیا کہ حماس نے غزہ کی پٹی میں اپنے عسکری ونگ کے ایک درجن سے زاید مشکوک مخبروں کو پکڑ کران سے پوچھ تاچھ شروع کی ہے۔

ان افواہوں کے پھیلانے میں سعودی عرب سے نشریات پیش کرنے والے العربیہ چینل نے صہیونی ریاست کی خوب ترجمانی کی۔ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو کم زور کرنے، عوام میں حماس کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنے اور مزاحمتی قوتوں کی غلطیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں صہیونی دشمن کی خوب مدد کرکے اپنی غدارانہ سوچ کا ثبوت اورغیر پیشہ وارانہ ابلاغی طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ اسرائیلی میڈیا کی طرف العربیہ چینل نے بھی ذرائع ابلاغ کی آزادی کے اصولوں کی صریح نفی کی اور اسرائیلی دشمن کے بیانیے پرخبریں شائع کرکے فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی۔

تجزیہ نگار عماد ابو عواد نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے خلاف نفرت پر اکسانے اور افواہیں پھیلانے میں عرب ممالک کے ذرائع ابلاغ کی سازشوں کے پیچھے دیگر اسباب میں ایک سبب ان عرب مملک کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے تعلقات بھی ہیں۔ فلسطینی مزاحمتی طاقتیں غاصب صہیونی دشمن کے ساتھ عرب حکمرانوں کی دوستیوں کو سب سے بڑی، گھنائونی اور خطرناک سازش قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینی مزاحمت اور آزادی کے پروگرام کو ناکام بنانے میں جہاں ایک طرف اسرائیلی ریاستی میشنری کام کررہی ہے وہیں بعض داخلی اور خارجی قوتیں بھی دشمن کی اس سازش میں اس کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں۔

ابو عواد کا کہنا ہے کہ مزاحمت کاروں کے خلاف افواہوں کی یلغار اس وقت سے جاری ہے جب غزہ میں مزاحمت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہ مزاحمت ہی ہے جس نے صہیونی دشمن پر کاری ضربیں لگائیں۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن ہرطریقے سے مزاحمتی طاقتوں کو کمزور کرنے اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے لیے جہاں عبرانی ذرائع ابلاغ کی مدد حاصل ہے وہیں بعض عرب ملکوں کے ذرائع ابلاغ بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں۔

تجزیہ نگار عبداللہ العقاد نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین میں انقلابی اور مزاحمتی سوچ کی حمایت میں عوام کا دوبارہ اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ احساس اور اعتماد فلسطینی عوام میں بیداری اور انقلابی سوچ پیدا کرکے کیا جاسکتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی