حال ہی میں اسرائیلی حکام نے مسلسل 18 سال تک پابند سلاسل رکھنے کے بعد ایک فلسطینی مسیحا ڈاکٹر امجد قبھا کو رہا کیا۔ اکاون سالہ ڈاکٹر قبھا کو دشمن کی جانب سے اٹھارہ سال تک قید میں رکھا تو رہائی کے بعد ان کے پاس بیان کے لیے الفاظ نہیں تھے۔
وہ رہا ہوئے مگران کی رہائی اس خوشی کے مترادف نہیں جو ایک عام قیدی رہائی کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی آزادی ہے جو زمین کی سطح پر کسی چیز سے مماثل نہیں ہے۔
اٹھارہ سال کی اسیری میں ڈاکٹر قبھا کے لیے بہت کچھ بدل چکا تھا۔ رہائی کے بعد وہ آبائی علاقے برطعہ کے قبرستان پہنچے جہاں ان کے والد اور دیگر اقارب آسودہ خاک ہیں۔ انہوں نے اپنےوالد کی روح کی تسکین کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ اسرائیلی زاندانوں میں قید رہنے والے ڈاکٹر قبھا اپنے والد سے آخری ملاقات اور ان کا آخری بار دیدار کرنے سے بھی محروم رہے۔
رہائی کے بعد والد کی قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد ڈاکٹر امجد قبھا اپنی والدہ کے پاس پہنچے۔ آج سے اٹھارہ سال قبل جب انہیں چھوڑا تو وہ ایک مضبوط اور توانا خاتون تھیں اور آج بیماری اور بڑھاپے نے ان کے قویٰ مضمحل کردیئے ہیں اور وہ بے حس وحرکت ہوگئی ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے ڈاکٹر امجد قبھا کی رہائی کے بعد ان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے اسیری اور رہائی دونوں برابر ہیں۔ وہ آج جو کچھ اپنے گھر اور کنبے میں دیکھ رہے ہیں وہ اٹھارہ سال پیشتر ایسا نہیں تھا۔ آج بہت کچھ بدل چکا اور مسائل بری طرح الجھ چکے ہیں۔
ڈاکٹر قبھا کی اکلوتی بیٹی تسنیم آج اٹھارہ سال کی ہوچکی ہیں۔ جب ڈاکٹر امجد کو گر فتارکیا گیا تو اس وقت تسنیم کی عمرصرف چند ماہ تھی۔
اگرچہ تسنیم کی اپنے والد سے جیل میں متعدد بار ملاقات کی مگر یہ ملاقات براہ راست نہیں ہوتی تھی بلکہ ملاقات کے وقت دونوں کے درمیان لوہے کی سلاخیں اور موٹے شیشے کی ایک دیوار حائل رہتی تھی۔ آج وہ میٹرک کے امتحانات کے نتائج کا انتظار کررہی ہے۔
اپنی گفتگو میں ڈاکٹر قبھا نے قیدیوں کو فراموش نہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وہ بہت بڑا درد پیچھے چھوڑ گئےہیں لیکن وہ اپنے ضمیر کے فیصلے پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی داخلی سلامتی کی وزارت کی جانب سے قیدیوں کے حقوق کے معاملے میں ھیرا پھیری کی وجہ سے قیدی قابض دشمن کے خلاف احتجاجی تحریک کی تیاری کررہےہیں۔
ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے انہوں نے قیدیوں کو درپیش جسمانی بیماریوں جیسے سنگین مسائل پر روشنی ڈالی۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینیوں کو ناکافی طبی سہولیات کا سامنا ہے اور بیشتر فلسطینی بیمار قیدیوں کے ساتھ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں سیکڑوں فلسطینی بیمار اور زخمی حالت میں انتہائی تکلیف میں قید کاٹ رہے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے وہ ساتھی قیدیوں کو بیماریوں میں علاج کے مشورہ دینے کی کوشش کرتے تو اسرائیلی جیل انتظامیہ کی طرف سے انہیں انتقامی حربوں اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ انہیں کئی بار ایک سے دوسری جیل صرف اس لیے منتقل کیا گیا کہ وہ بیمار قیدیوں کو مفید مشورے دیتے تھے۔
ڈاکٹر قبھا نے بتایا کہ اسرائیلی زندانوں میں بیماریوں کے شکار فلسطینیوں نسخے اور علاج کے لیے تجویز کردہ ادویات کے برعکس الٹا اثر دکھانے والی ادویات دی جاتیں۔ اگر کسی مریض کو بلند فشار خون کا سامنا ہوتا تو اسے بلڈ پریشر بڑھانے والی ادویات دے کر اس کی جان خطرے میں ڈال دی جاتی۔ اس طرح کئی قیدیوں کی حالت بار بار تشویشناک ہوتی رہی ہے۔
رہائی پانے والے فلسطینی عزت قبھا نے اپنی ایک بیٹی سے 18 سال بعد پہلی بار ملاقات کی۔ قبھا کو اٹھارہ سال قبل اس وقت حراست میں لے لیا گیا تھا جب ان کی اہلیہ امید سے تھی اور ان کی گرفتاری کے بعد ان کی بیٹی تسنیم پیدا ہوئی تھی۔
ڈاکٹر امجد عزت قبھا پر اسرائیل کی ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور انہیں اسرائیل مخالف کارروائیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں اٹھارہ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ عزت قبھا سابق وزیر برائے امور اسیران وصفی قبھا کے بھائی ہیں۔