اسرائیل نے فلسطین کے زرخیر اور انتہائی پیدا واری سرزمین وادی اردن پرقبضے کا منصوبہ آج نہیں بلکہ سنہ 1950ء کی دھائی میں بنایا، تاہم اس منصوبے پرعمل درآمد 1967ء کی چھ روزہ عرب ۔ اسرائیل جنگ کے بعد آلون نامی منصوبے کی شکل میں ہوا۔ اس منصوبےکا مقصد وادی اردن کے زرخیز علاقوں پراپنا تسلط قائم کرنا تھا۔
وادی اردن کو فلسطین میں چشموں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس کی مٹی بھی سونا اگلتی ہے اور فلسطینیوں کی معیشت بالخصوص زراعت اور کھیتی باڑی کا زیادہ انحصار اسی زرخیز وادی پر ہے۔ جب سے اسرائیل نے اس وادی پرقبضہ کیا ہے وہاں پر 32 یہودی بستیاں اور درجنوں فوجی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ فوجی کیمپوں کے اطراف میں وسیع رقبے کو خالی چھوڑنے کے ساتھ ساتھ اسے فوجی علاقہ قرار دے کر فلسطینیوں کو وہاں جانے سے سختی کے ساتھ روکا جا رہا ہے۔
وادی اردن پر اسرائیل کی مکمل خود مختاری قائم کرنا دراصل فلسطینی قوم کی معیشت اور ان کے لقمہ عیش کو کنٹرول کرنا ہے۔ ان کے پانی کے وسائل پرقبضہ کرنا اور زرعی اراضی سے محروم کرکے فلسطینیوں پر معاشی اور زرعی عرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔
اسرائیل کے لیے اس وقت دیگر اہم چیزوں میں خوراک اور اجناس کی اہمیت ہے۔ وادی اردن اپنے آبی وسائل اور زرخیزی کی بدولت اسرائیل کے لیے سونا اگلنے والی وادی سے کم نہیں۔ وادی اردن کی زمین، اس کے چشمے،ندی نالے فلسطینیوں کے پینے کے لیے پانی کی فراہمی کے ساتھ آب پاشی اور مال مویشیوں کی پانی کی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں۔
اسرائیل کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اسرائیل وادی اردن کے 88 فی صد علاقے پرقبضہ کرچکا ہے۔ اس علاقے میں فوج کی تعداد اور یہودی آباد کاروں کی آبادی بڑھائیجا رہی ہے۔ وادی اردن میں 27 فلسطینی قصبوں میں رہائش پذیر 1967 فلسطینیوں کووہاں سے جبرا نکال باہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
فلسطینی کسان اسرائیلی” الحاق کے منصوبے "کا ہدف ہے اور اس کی زمینی مصنوعات زرعی پیداوار ، سبزیاں اور پھلوں سے فلسطینی کسانوں اور آبادی کو محروم کرنا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے وادی اردن کے عوام روزانہ کی جانے والی خلاف ورزیوں کے باوجود اپنے دیہات میں ثابت قدم ہیں۔ حالانکہ روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی انتقامی کارروائیوں سے فلسطینی کاشت کاروں کا نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
وادی اردن کا علاقہ شمال میں بیسان سے صفد تک پھیلا ہوا ہے۔ جب کہ جنوب میں اس کی سرحد عین جدی سے جزیرہ النقب تک پھیلی ہوئی ہے۔
وادی اردن کا مجموعی رقبہ سات لاکھ 20 ہزار دونم ہے۔ یہ انتہائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے جو فلسطینی زراعت اور کھیتی باڑی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی مٹی انتہائی زرخیز اور پیداواری ہے جو سال میں دو اور تین فصلیں بھی دیتی ہے۔
وادی اردن کا مرکزی شہر اریحا ہے جب کہ وادی کی کل فلسطینی آبادی56 ہزار 908 ہے۔ وادی اردن کی فلسطینی آبادی کل آبادی کا صرف دو فی صد ہے۔ سنہ 2021ء کے آخر تک وادی اردن میں فلسطینی آبادی چھ ہزار سے تجاوز کا امکان ہے۔
خاتون تجزیہ نگار زعیتر ربح کا کہنا ہے کہ وادی اردن میں یہودی بستیوں کی تعداد 35 ہے۔ یہ یہودی بستیاں سالانہ 10 ارب ڈالر کا منافع دیتی ہیں۔ اگر وادی اردن کو فلسطین سے الگ کرکے اسرائیل کا حصہ بنایا جاتا ہے کہ تو فلسطینی اس وادی سے مکمل کٹ کر رہ جائیں گے۔
وادی اردن میں فلسطینیوں کی مجموعی آبادی 65 ہزار ہے۔ ان میں سے 10 ہزار فلسطینی اسرائیل کے تسلط میں ہیں تاہم انہیں اور دیگر فلسطینیوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جبری ھجرت کے ظلم کا سامنا ہے۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیر ماحولیات نے کہا تھا کہ الحاق کے منصوبے سے غرب ردن کے شمالی شہر جنین کے 60 فی صد اور غرب اردن کے 30 فی صد علاقوں پر صہیونی ریاست کا براہ راست کنٹرول قائم ہوگا۔
وادی اردن کو فلسطین میں خوراک کی ٹوکری کہا جاتا ہے۔ وادی اردن غرب اردن کے شہریون کے لیے کھجور کی 100 فی صد ضرورت پوری کرتی ہے۔ اسی طرح یہ وادی کیلے کی 100 فی صد ضرورت پوری کرتی اور غرب اردن کے لیے سبزیوں اور ترکاریوں کا 60 فی صد پورا کرتی ہے۔
تجزیہ نگار زعیتر کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی پیرس اقتصادی معاہدے میں وادی اردن کی زرخیزی سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی ترمیم نہیں کراسکی اور نہ ہی وادی اردن پر فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کرایاگیا ہے۔