جب سے امریکی انتظامیہ نے "صدی کی ڈیل” کا اعلان کیا ہےفلسطینی پناہ گزینوں کے ذمہ دار ادارے اونروا کو بدترین معاشی اور مالی بحران کا سامنا ہے۔
امریکی انتظامیہ کا سنہ2018 سے UNRWA کے لیے اپنی مالی مدد کم کرنے کا فیصلہ ایجنسی کے سات دہائی پرپھیلی خدمات میں ایک اسٹریٹجک موڑ ثابت ہوا ہے۔
"اونروا” ایجنسی کا قیام 1949 میں عرب اسرائیل جنگ کے ایک سال بعد ہوا۔ یہ ادارہ اس وقت اندرون اور بیرون ملک کم سے کم ستر لاکھ سے زاید فلسطینی پناہ گزینوں کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔ ویسے تو اس ادارے کے ذمہ فلسطینی پناہ گزینوں کے تمام سماجی، معاشی، تعلیمی، طبی اور دیگر ضروریات کی فراہمی ہے مگرجب سے امریکی صدر نے اس کے خلاف انتقامی کارروائی شروع کی ہے یہ ادارہ بدترین معاشی اور مالی مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ اونروا کی بجٹ میں غیرمعمولی کمی کے نتیجے میں اندرون اور بیرون ملک لاکھوں فلسطینی متاثر ہوئے ہیں۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کے دفاع کے لیے قائم کردہ کمیٹی 302 کے ڈائریکٹرعلی ہویدی نے "مرکزاطلاعات فلسطینی” کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ "یو این آر ڈبلیو اے” قائم کرنے کا فیصلہ فلسطینی عوام کے دوتہائی سے زیادہ افراد کو اکھاڑ پھینکنے اور ان کو ان کی سرزمین سے ملک بدر کرنے کے عمل سے وابستہ ہے ، جب تک کہ ایجنسی ان کو روزانہ کیمپ کیمپوں میں فراہم نہیں کرتا۔ وہ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
جرائم کے عینی شاہد
علی ہویدی نے واضح کیا کہ "یو این آر ڈبلیو اے” وقت کے ساتھ فلسطینی عوام کے خلاف سب سے بڑے صہیونی جرم کا زندہ گواہ بن گیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب تک فلسطینی عوام اپنی سرزمین اور گھروں کو واپس نہ آجائیں اس وقت تک یہ اپنا کردار ادا کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی دشمن کی ساری حکومتوں نے فلسطینیوں کے حق واپسی کو ناممکن بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اس طرح اسرائیلی حکومتوں نے امریکا کے ساتھ مل کرقضیہ پناہ گزین کو ختم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
سیاسی مسئلہ
پناہ گزینوں کے حقوق کے دفاع کے لیے کمیشن 302 کے ڈائریکٹر نے کہا کہ کہ "یو این آر ڈبلیو اے” نہ صرف مہاجرین اور ان کے مسئلے کی نمائندگی کرتا ہےبلکہ ایک ابتدائی سیاسی مسئلہ کے حل کا بھی ذمہ دار ہے۔ اس کا حق واپسی کے مسئلہ کے جوہر سے براہ راست تعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی اس ایجنسی کو نظرانداز کرتا ہے اور اس کے لیے متبادل پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کاز اور فلسطینی عوام کے خلاف غداری کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے اور ایسا جرم کرتا ہے جس سے پناہ گزینوں کی آباد کاری کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔
تجزیہ ن گار کا کہنا ہے کہ فی الحال جو کچھ ہورہا ہے وہ امریکی امدادی تنظیموں اور صیہونی ریاست کا ڈونر ممالک پر دبائو ہے تاکہ ” یو این آر ڈبلیو اے "کو معاشی زبوں حالی کا شکار کیا جا سکے۔
13 دسمبر 2019 کو 167 ممالک نے یو این آر ڈبلیو اے کو اگلے تین سالوں میں توسیع کے لیے ووٹ دیا۔جون 2023 تک یہ مینڈیٹ بر قرار رہے گا۔