فلسطینی اس وقت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ کرونا کی وبا نے دنیا کی دوسری اقوام کی طرف فلسطینیوں کو بھی اندرون اور بیرون ملک گھیرے میں لے رکھا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کےمطابق اب تک کے اعدادو شمار کے مطابق پوری دنیا میں پھیلے 78 فلسطینی کرونا سے جاں بحق ہوچکے ہیں جب کہ متاثرہ فلسطینیوں کی تعداد 1445 ہوگئی ہے۔ فلسطینی تارکین وطن میں کرونا سے مزید کتنی ہلاکتیں ہوسکتی ہیں اور مزید کتنے فلسطینی اس وبا کا شکار ہوسکتے ہیں اس کے بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے تاہم خدشہ ہے کہ مزید سیکڑوں فلسطینی اس مہلک وبا کا شکار ہوسکتےہیں۔
کرونا کی وبا کا شکار ہونے والے ممالک میں موجود فلسطینی اس وقت خوف ہراس کا شکار ہیں۔ بیرون ملک موجود فلسطینیوں میں محنت مزدوری کرنے والے شہریوں کے ساتھ ساتھ طلباء کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔
ان فلسطینیوں کی طرف سے بار بار فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا گیا کہ ان کی زندگیاں بچانے کے لیے ان کی فلسطین واپسی کا انتظام کیا جائے مگر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ دنیا بھر میں موجود فلسطینی سفارت خانے بھی تارکین وطن کو کرونا سے تحفظ دینے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں صاف ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے مختلف سوشل میڈیا سائٹس کے ذریعہ ان تارکین وطن کی سیکڑوں اپیلوں کا پتا چلایا ہے۔ انہوں نے فلسطینی وزارت خارجہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کی شکایات سنیں اور کرونا وائرس کے پہنچنے سے پہلے انہیں ان کی وطن واپسی کے لیے انتظامات کیے جائیں۔
القدس کی طالبہ صابرین طٰہ ایک امریکی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس نے امریکا میں فلسطینی سفارت خانے سے رابطہ کیا لیکن اس کو اطمینان بخش جواب نہیں ملا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ میں نے اور دوسرے طلباء نے فلسطینی سفارتی عملے کے تمام افراد سے رابطہ کیا مگران کی طرف سے کسی قسم کیا کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔
طالب علم محمد فرانکو نے کہا کہ امریکا میں سیکڑوں طلباء اس وقت مالی، مادی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ایسے طلبا کی امریکا میں بڑی تعداد ہے جو موجودہ حالات کی وجہ سے ذہنی تنائو اور صحت کے مسائل سے دوچار ہوچکے ہیں۔
ترکی میں ایک فلسطینی طالب علم عبد اللہ احمد نے تصدیق کی ہے کہ وہاں طلباء حالات مشکل ہیں اور اور مشکلات ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم گذشتہ مارچ سے اپنے ہاسٹلوں میں قید ہیں۔ ہم اورہمارے اہل خانہ سب اس ساری صورت حال سے پریشان ہیں۔
کرونا کے بحران سے فلسطینی طلباء سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ کیوں کہ بہت سارے علاقوں میں یونیورسٹیاں اور طلباء کے ہاسٹل بند کردیے گئے اور طلباٰ کی بڑی تعداد سڑکوں اور فٹ پاتھوں پرآگئی ہے۔
طلباء کے لیے سب سے پریشان کن مالی مشکلات ہیں۔ ان غیر معمولی حالات میں سرکاری حکام کی کی طرف سے ان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی جا رہی ہے۔
فلسطینی انسانی حقوق کے محافظ عصام عابدین جو تارکین وطن کے معاملے پر گہری نظر رکھتے ہیں نے ‘مرکزاطلاعات فلسطین’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیرون ملک مقیم فلسطینی تارکین وطن جن مشکلات میں وہ بیان کے قابل نہیں۔ ۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے تارکین وطن کی مشکلات کے حل میں عدم توجہی شرمناک ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے اپنے ہی شہریوں کو کرونا کی وبا کے دوران حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے
اور انسانی حقوق کے کارکن عابدین نے کہا کہ حکومت جان بوجھ کر ایسے فلسطینی طلبا کی توہین کرتی ہے جو ملک سے باہر پھنسے ہوئے ہیں اور کوئی ایسا حل تلاش کرنے پر غور نہیں کیا جا رہا جس سے بیرون ملک پھنسے فلسطینیوں کی وطن واپسی ممکن ہوسکے۔
کرونا وبائی امراض کے آغاز سے ہی وطن سے باہر پھنسے ہوئے فلسطینی طلباء کی انسانی صورتحال المناک ہے اور ان میں سے بہت سے ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے سفارت خانوں کی طرف سے تارکین وطن کے معاملے میں کسی قسم کا تعاون نہ کرنا اور تارکین وطن کی مشکلات کو نظرانداز کرنا کھلم کھلا مجرمانہ غفلت ہے۔