اسرائیلی جیل میں قید شمالی مغربی کنارے کے جنین سے تعلق رکھنے والے قیدی کی والدہ یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئیں کہ ان کےبیٹے کے قاہرہ عمان بینک میں بینک اکاؤنٹ میں موجود رقم کے بارے میں پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ اس میں کوئی رقم موجود نہیں ہے۔ اس واقعے نے بنک ملازمین اور خواتن کے درمیان تلخ کلامی پیدا کی اور اسیر کی ماں نے اکائونٹ میں موجود رقم واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔
اس طرح کے کئی دوسرے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ قیدیوں کے اہل خانہ اورقاہرہ عمان بنک کے ملازمین میں بڑے پیمانے پر الجھن جاری ہے کیوں کہ بینک کے ملازمین نے قیدیو کے والدین اور ان کے دیگر اقارب کو رقوم دینے سے انکار کردیا اور کہا ہے کہ اکائونٹس میں کوئی رقم موجود نہیں ہے۔ فلسطینی اسیران اور ان کے اہل خانہ کے قاہرہ عمان بنک کے اس طریقہ واردات کو صہیونی ریاست کے سامنے گھٹنے ٹینکنے اور ضرورت مند افراد کے معاشی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
اس خاتون کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کنفیوژن کی صورتحال کا ایک حصہ ہے جو قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے مابین پائی جاتی ہے۔ قیدیوں کے اقارب کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی سول انتظامیہ کی طرف سے بھی انہیں دھمکیوں کا سامنا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اسیران اور شہید فلسطینیوں کے خاندانوں کے لیے قسم کی رقم جاری نہیں کی گئی۔
زیرو بیلنس اور اکانوئٹس کی بندش
جمعرات کی صبح سیکڑوں سابق اسیران اور قیدیوں کے کنبوں کے افراد قاہرہ عمان بینک اور بینک آف اردن پہنچے تاکہ وہ ان اکاؤنٹس کو بند کریں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ بنک کی طرف سے انہیں بلایا گیا اور کہا گیا ہے کہ وہ اپنے سابقہ اکائونٹس کو بلاک کرائیں۔
قیدیوں کے لواحقین نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کو بتایا کہ انہیں حیرت ہوئی کہ بیلنس اور کھاتوں کو بند کردیا گیا تھا۔ان کے اکاؤنٹ بینک میں آنے سے پہلے ہی صفر کردیئے گئے تھے۔
رہا ہونے والے اسیر منذر دراغمہ نے کہا کہ جب ہم نے بینک کے ملازمین سے انکے اکاؤنٹس منجمد ہونے کے بعد رہا ہونے والے قیدیوں اور بینکوں سے قرضوں اور بینک سہولیات لینے والے قیدیوں کے اہل خانہ کے ساتھ مالی معاملات کرنے کے بارے میں پوچھا تو ملازمین نے جواب دیا کہ انہیں معلوم نہیں کہ اگلا اقدام کیا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملازمین کے بیان کے مطابق یہ بات ہمارے سامنے واضح ہوگئی کہ یہ فیصلہ ان بینکوں کی شاخوں پر بھی لاگو کیا گیا ہے۔ان سے کہا گیا تھا کہ جلدی میں تمام اکاؤنٹس بند کردیں۔ بعد میں ان کے مالی معاملات دیکھ لیں گے۔
سابق اسیر معتصم ستیتی نے بھی ہمارے نامہ نگارسے بات کرتے ہوئے قاہرہ عمان بنک میں اپنا اکاؤنٹ بند کرنے کی درخواست پر حیرت کا اظہار کیا۔ بہت سے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ اور سابق اسیران نے اس فیصلے کا جواب دینے والے بینکوں کے دائرہ اختیار کے بارے میں پوچھا ، اور ان اقدامات کی مذمت کی جو ایک خطرناک مرحلے کی نشاندہی کرتی ہے۔
انتہائی خطرناک پیش رفت
سابق وزیر برائے اسیران وصفی قبہا نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے اسیران کے اہل خانہ کے بنک اکائونٹس کی بندش کو انتہائی خطرناک پیش رفت قراردیا۔ انہوں نے کہاکہ فلسطینی اسیران کے معاملے میں اس سے قبل اسرائیلی ریاست انتقامی کارروائی کرتی رہی ہے اور اب فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت بنک بھی اسرائیل کی بولی بولنے لگے ہیں۔
وصفی قبہا کا کہنا تھا کہ اسیران کے اکائونٹس کی بندش ان کے معاشی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
انہوں نےکہا کہ وہ حیرت زدہ ہیں کہ فلسطین میں کام کرنے والے اردنی بینکوں میں سے ایک نے قابض اسرائیل کے فیصلوں کی تعمیل کی اور اس کے دباؤ میں آ کر فلسطینی اسیران کے اکائونٹس بند کرنا شروع کردیے۔
فلسطینی سیاست دان کا کہنا تھا کہ سابق اسیران اور موجودہ قیدیوں کے اہل خانہ کو ان کے ماہانہ الائونس سے محروم کرنا تحریک آزادی فلسطین کے لیے جدو جہد کرنے والوں پر معاشی دبائو ڈالنے کی مذموم کوشش ہے اور اس کوشش میں غرب اردن کےبنک بھی شامل ہوگئے ہیں۔ تاہم اسرائیلی ریاست کے اس اقدام کے باوجود فلسطینیوں کی آزادی کے لیے جاری تحریک کم زور نہیں ہوگی۔ فلسطینی اسیران کے معاملے میں عناد، تعصب اور نفرت کا مظاہرہ کرنے والوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔