چهارشنبه 30/آوریل/2025

طالبان سے معاہدے کے بعد امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی شروع

بدھ 11-مارچ-2020

امریکا نے طالبان سے افغان امن معاہدے کے تحت افغانستان سے فوج کا انخلاء شروع کر دیا ہے جس کا مقصد ملک میں امن قائم کرنا ہے۔

امریکا نے معاہدے کے تحت، 135 دن کے اندر افغانستان میں اپنی فوج کو 12 ہزار سے کم کر کے 8600 کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کو واپس بھیجنا امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو ہونے والے تاریخی امن معاہدے کی ایک شرط تھی۔

افغان حکومت نے اس معاہدے میں حصہ نہیں لیا تاہم یہ توقع ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ابتدا میں کہا تھا کہ وہ عسکریت پسند گروپ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی شرط کے طور پر طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کے معاہدے پر عمل نہیں کریں گے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق، افغان صدر اشرف غنی جنھوں نے 9 مارچ کو دوسری مدت کے لیے صدر کے عہد کا حلف اٹھایا ہے کی جانب سے رواں ہفتے کم از کم ایک ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کرنے کا امکان ہے۔

گذشتہ ہفتے امریکہ کی جانب سے افغان صوبے ہلمند میں افغان فورسز پر طالبان جنگجوؤں کے حملے کے جواب میں ایک فضائی حملہ کے بعد امن معاہدہ ٹوٹتا دکھائی دیا تھا۔ طالبان نے جنگی کاروائیوں میں کمی کا مطالبہ کیا تھا اور سوموار کو افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے امریکی فوجیوں کے انخلا کے پہلے مرحلے کا اعلان کیا۔

کرنل لیگٹ نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ نے فوجیوں کی واپسی کے باوجود افغانستان میں ’اپنے تمام مقاصد کے حصول کے لیے تمام فوجی وسائل اور حکام کو برقرار رکھا ہے۔‘

امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے عسکریت پسندوں کی جانب سے معاہدے کو برقرار رکھنے کی صورت میں 14 ماہ کے اندر تمام فوج واپس بلانے پر اتفاق کیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ، افغان عسکریت پسندوں نے حملوں سے باز رہنے کے ساتھ ساتھ القاعدہ یا کسی اور شدت پسند گروہ کو اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں آپریشن کرنے کی اجازت نہ دینے پر اتفاق کیا ہے۔

یاد رہے کہ امریکا نے ستمبر 2001 میں نیویارک میں القاعدہ کے حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا لیکن وہ ایک شورش پسند قوت بن گئے اور سنہ 2018 تک ملک کے دوتہائی سے زائد حصے پر متحرک رہے۔

مختصر لنک:

کاپی