اسرائیل میں 2 مارچ کو ہونے والے کنیسٹ کے انتخابات میں ایک بار پھر انتہا پسند لیڈربنجمن نیتن یاھو کی جیت کے اعلانات کے بعد فلسطینی قیادت کی طرف سے ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے نیتن یاھو کی الیکشن میں جیت پر فلسطینی قیادت کا رد عمل معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کی قیادت کا کہنا ہے کہ کنیسٹ کے انتخابی نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صہیونی معاشرے میں غاصبانہ سوچ اور قبضے کے تسلسل کے نظریے کو بالا دستی حاصل ہے۔ ان انتخابات نے ایک بار پھرثابت کیا ہے کہ اسرائیلی ریاست دراصل بنجمن نیتن یاھو جیسے انتہا پسندوں ہی کا گڑھ ہے، جو فلسطینیوں کے حقوق کی نفی اور ارض فلسطین پرغاصبانہ قبضے کی ذہنیت رکھتے ہیں۔
حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے کہا کہ اسرائیل کی آئندہ دنوں میں قائم ہونے والی حکومت کے تنازع فلسطین کے حوالے سے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ نئی حکومت بھی غاصبانہ قبضے کو آگے بڑھانے اور فلسطینی آزادی کی تحریک اور مزاحمت کو کچلنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہوگی۔
اسلامی جہاد کے رہ نما دائود شہاب نے کہا کہ اسرائیل میں عام انتخابات کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اسرائیل کی فطر میں فلسطینی قوم کے خلاف جارحیت رچی بسی ہے۔ جس جارحیت کا سامنا ہم آج کررہے ہیں کل بھی کریں گے۔ چہرے بدلے سے کوئی فرق نہیں پڑےگا۔
عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کیے رکن تیسیر خالد نے کہا کہ اسرائیلی کنیسٹ کے انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ فاشزم اور انتہا پسندی ایک بار پھر جیت گئی ہے۔ نیتن یاھو کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے انتہا پسندوں کی فلسطینی قوم کے خلاف دشمنی، توسیع پسندی، یہودی آبادکاری اور انتہا پسندانہ نسل پرستی میں مزید اضافہ ہوگا۔