اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی شعبے کے سینیر رہ نما ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق بے کہا ہے کہ امریکا کی طرف سے امریکا کے ساتھ مذاکرات کی بار بار پیش کش کی گئی مگر حماس نے امریکا کے ساتھ بات چیت اور ثالثی کی تمام پیش کشیں ٹھکرا دیں۔
ترکی کی اناطولیہ نیوز ایجنسی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں موسیٰ ابو مرزوق نے کہا کہ امریکا کے سنچری ڈیل منصوبے کو ناکام بنانےکے فلسطینی قوم کو تین نکاتی پروگرام پرعمل درآمد کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا فلسطینیوں کو سب سے پہلے اپنی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی کی فضاء قائم کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کا بچہ بچہ قابض صہیونی دشمن کے خلاف مزاحمت پر متفق ہوجائے اور تمام قوت کو مجتمع کر کے تحریک آزادی اور مزاحمت کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو استعماری قوتوں کے خلاف انہی قوموں کو کامیابی ملی ہے جو سیسہ پلائی دیوار بن کر استعمار کے مقابلے میں کھڑی ہوئیں۔ فلسطینی قوم بھی اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے اپنے وطن پر قابض غیر قوم کو نکال باہر کرے گی۔
ابومرزوق کا کہنا تھا کہ امریکی سنچری ڈیل میں فلسطینی قوم کا مقدر پنہاں نہیں۔ فلسطینی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ کوئی امریکا یا قابض اسرائیل فلسطینی قوم کا مقدر نہیں لکھے گا۔
حماس رہ نما نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سنچری ڈیل ایک طاقت ور اور غاصب ملک کا ایک کمزور پر مسلط کردہ فیصلہ ہے۔ فلسطینی اپنے اتحاد سے امریکا اور اسرائیل کے اس مذموم اور منحوس منصوبے کو ناکام بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی منصوبہ فلسطینی قوم کے خلاف ایک استعماری طاقت کا منصوبہ ہے مگر فلسطینی قوم اسے کاغذ پر لکھی سیاہی کے ایک نکتے کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔
انہوں نے تفصیلی انٹرویو میں بتایا کہ سنچری ڈیل کے اعلان کے بعد حماس نے عالمی برادری، عرب اور مسلمان ملکوں کے ساتھ رابطے کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 28 جنوری 2020ء کوجب وائٹ ہائوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کےہمراہ سنچری ڈیل کا اعلان کر رہےتھے تو اس وقت بعض عرب ممالک کے امریکا میں متعین سفیر بھی موجود تھے۔ عرب سفیروں کی اس موقعے پرموجودگی سے صاف ظاہرہوتا ہے کہ فلسطینی قوم کے خلاف سازش میں امریکا اور اسرائیل کو بعض عرب ممالک کی آشیر باد اور حمایت بھی حاصل ہے۔