فلسطینی صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں مطالبہ کیا ہے کہ دنیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ مشرقِ اوسط امن منصوبہ کو مسترد کردے۔انھوں نے کہا کہ اس منصوبہ سے فلسطینیوں کی خود مختاری محدود ہوکر رہ جائے گی۔
انھوں نے منگل کے روز سلامتی کونسل میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اسرائیلی ، امریکی منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔اس نے فلسطینیوں کے جائز حقوق پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔‘‘انھوں نے اجلاس میں امریکی منصوبہ میں وضع کردہ ایک بڑے فلسطینی نقشے کو لہرایا۔
فلسطینی اتھارٹی نے سوموار کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی صدر کے مجوزہ مشرقِ اوسط امن منصوبہ کے استرداد کے لیے قرارداد واپس لے لی تھی۔سفارت کاروں کے مطابق فلسطینیوں کو اس قرارداد کی منظوری کے لیے درکار بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
سلامتی کونسل میں یہ قرارداد انڈونیشیا اور تُونس نے پیش کی تھی۔اس کی منظوری کے لیے کونسل کے پندرہ میں سے نو ارکان کی حمایت درکار تھی۔نیز اس کو کوئی مستقل رکن ملک ویٹو بھی نہ کرے۔اس بات کا قوی امکان تھا کہ امریکا اس کو ویٹو کردے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 28 جنوری کو عشروں پر محیط اسرائیل ، فلسطینی تنازع کے حل کے لیے اپنی انتظامیہ کے طویل عرصے سے التوا کا شکار مشرقِ اوسط امن منصوبہ کا اعلان کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا شاید یہ آخری موقع ہے۔انھوں نے اپنے اس منصوبہ کو ’’صدی کی ڈیل‘‘ قرار دیا تھا۔
محمود عباس اور دوسری فلسطینی تنظیموں نے اس منصوبہ کو مسترد کردیا تھا۔انھوں نے تب کہا تھا کہ وہ ایسے کسی امن منصوبہ کو تسلیم نہیں کرسکتے جس میں تنازع کے دو ریاستی حل کی ضمانت نہ دی گئی ہو۔اس کو عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم نے بھی مسترد کردیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ مجوزہ امن منصوبے کے بعد اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور غربِ اردن اور غزہ کی پٹی میں تشدد کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے تحت اسرائیل کو مقبوضہ بیت المقدس پر مکمل کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔وہ غربِ اردن میں تعمیر کردہ تمام یہودی بستیوں کو ریاست میں ضم کرسکے گا۔اس کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی اپنا قبضہ برقرار رکھ سکے گا۔