قابض صہیونی ریاست کے زندانوں میں قید فلسطینی بچوں کو صہیونی ریاست اپنے منظم جرائم کو طول دینے کے لیے ہتھکنڈے کے طورپر استعمال کرتی ہے۔
اس وقت اسرائیلی زندانوں میں قید کیے گئے فلسطینی بچوں کے خلاف طرح طرح کے انتقامی حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ انہیں انتظامی قید کی سزائیں سنائے جانے کےبعد اپنے وکلاء سے ملنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ کم سن ان فلسطینی بچوں کو بڑی عمر کے فلسطینی قیدیوں سے دور کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جرائم پیشہ صہیونی قیدیوں کے ساتھ رکھا جا رہا ہے۔ اسرائیلی ریاست کے ان جارحانہ اقدامات کا ہدف فلسطینی بچے ہیں جنہیں کنج قفس میں ہرطرح کے حقوق سے محروم رکھنے اور ایک قدم اورآگے بڑھ کران کے ساتھ غیرانسانی برتائو کا نشانہ بنانا ہے۔
فلسطینی محکمہ امور اسیران کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقوں سے 889 فلسطینی بچوں کو حراست میں لیا۔ ان میں سے 200 بدستور پابند سلاسل ہیں۔ حراست میں لیے جانے اور رہائی پانے والے 90 فی صد بچوں کی طرف سے اپنے ساتھ برتے گئے مظالم کی شکایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں دوران حراست انواع واقسام کے جسمانی،ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے خلاف جعلی اور من گھڑت الزامات کے تحت عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے۔ ان مظالم کی آخری کڑی ان فلسطینی بچوں کو اسرائیلی ریاست کے جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ قید کرنا ہے۔ فلسطینی بچوں کو دوسری جیلوں سے بدنام زمانہ عقوبت خانے ‘دامون’ منتقل کیا گیا۔ انہیں بڑی عمر کے سرپرست فلسطینی اسیران سے دور کردیا گیا۔ حتیٰ کہ وکلاء سے ملاقات سے بھی محروم کردیا ہے۔
کم عمر فلسطینیوں کا بحران رواں سال کے آغاز کے ساتھ ہی زور پکڑ گیا۔ یہ بحران اس وقت شدت اختیارکر گیا جب کم عمر فلسطینیوں کو بڑی تعداد میں ‘دامون’ ،مجد اور عوفر جیلوں میں منتقل کیا گیا۔ دوسری جیلوں میں منتقل کیے گئے قیدیوں کی تعداد 34 بتائی گئی ہے۔
اس بحران سے گذرنے والے ایک سابق اسیر ولید جرادات نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی بچوں کو جیلوں میں منظم تنہائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ طرز عمل اسیر بچوں کی سلامتی اور سماجی حقوق کے حوالے سے سنگین خطرہ ہے۔ کم سن فلسطینی بچوں کو وحشی صہیونی جلادوں کے رحم وکرم پرچھوڑا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تحریک اسیران کے دوران اسرائیلی جیل انتظامیہ اور فلسطینی قیدیوں کے درمیان ہونے والی بات چیت اور معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ کم سن فلسطینی بچوں کو بڑے قیدیوں سے الگ نہیں کیا جائے گا۔ انہیں وکیل کے حقوق سے محروم نہیں رکھا جائے گا اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت انہیں حاصل تمام حقوق انہیں فراہم کیے جائیں گے۔ اس پرسنہ 2010ء میں بھی اسیران اور جیل انتظامیہ کے درمیان باقاعدہ اتفاق رائے ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے کہ وہ فلسطینی اسیران کے عزم اور حوصلے کو شکست دینے اور کم سن اسیران کو خوف زدہ کرنے کی منظم کوشش ہے۔