یہ 9 جون نہ 2006ء کا واقعہ ہے کہ 10 سالہ ‘ھدیٰ غالیہ’ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر اقارب کے ہمراہ غزہ فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے ساحل کے قریب کھیل کود میں مصروف تھی۔ بعض بچے سمندر میں نہا رہے تھے اور کچھ باہر ریت پر کھیل رہے تھے۔ اسی دوران اسرائیلی فوج کی ایک جنگی کشتی سے ان پر ایک گولہ داغا گیا جس کے نتیجے میں ‘ھدیٰ غالیہ’ کے والد سمیت کئی رشتہ دار شہید اور اس سمیت کئی زخمی ہوگئے۔
یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی ‘ھدیٰ غالیہ’ پر کیا گذری ہوگی جب اس کی آنکھوں کے سامنے صہیونی دہشت گردوں نے اس کے نہتے والد، خالہ اور پانچ بھائیوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے داغے گئے گولے سے ‘ھدیٰ غالیہ’ اور اس کی والدہ سمیت کئی دوسرے افراد زخمی ہوگئے۔
زخمی ہونے کے باوجود ‘ھدیٰ غالیہ’ کو اگر فکر تھی تو وہ اس کے والد تھے اور وہ چیخ چیخ کر ‘بابا بابا’ کہتے ہوئے ان کے تڑپتے لاشے کے ساتھ چمٹ گئی تھی۔
فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کے اس نوعیت کے جرائم کوئی نئی بات نہیں۔ گذشتہ 70 برس سے روزانہ کی بنیاد پر فلسطینی ظلم کی اسی سیاہ رات سے گذر رہے ہیں۔
اس المناک واقعے کو گذرے آج 14 برس بیت گئے ہیں۔ اپنے پیارے اورشفیق والد اور کئی بھائیوں کو کھو دینے کے بعد ‘ھدیٰ غالیہ’ نے ہمت نہیں ہاری بلکہ اس نے اپنی تعلیمی جاری رکھی۔
فلسطینی قوم ایسی ہی بہادر بیٹیوں پر مشتمل ہے جس میں ‘ھدیٰ غالیہ’ جیسی بچیاں جنم لیتی اور سب کچھ کھو دینے کے بعد بھی آزادی کے مشن سے دست بردار نہیں ہوتیں۔
‘ھدیٰ غالیہ’ نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور آج وہ غزہ کی پٹی میں باضابطہ طورپر وکالت کے میدان میں اتر چکی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سرکاری وکالت نامے کا حلف اٹھا کر یہ عزم کیا ہے کہ وہ قانون کے میدان میں صہیونی ریاست کے جرائم کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑیں گی۔
غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کے سابق چیئرمین عادل عوض اللہ کا کہنا ہے کہ ‘ھدیٰ غالیہ’ کوئی عام انسان نہیں بلکہ ہر فلسطینی کے دل میں بستی ہیں۔ اس کی نگہداشت ہمارا فرض تھا اور ہم پوری مستعدی اور ذمہ داری کے ساتھ اس کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہے تاکہ وہ تعلیمی کیریئر کی منزل کے حصول کے بعد عملی زندگی میں ایک بہترین، کامیاب اور کارآمد شہری ہونے کے ساتھ تحریک آزادی فلسطین کے لیے بھی اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرنے کے قابل ہوجائیں۔
‘ھدیٰ غالیہ’ نے جب وکالت کا حلف اٹھایا تو اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے بیرون ملک سے اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اسے ٹیلیفون کرکے ایک اہم ذمہ داری سنھبالنے پرمبارک باد پیش کی۔
اسماعیل ھنیہ نے ٹیلیفون پربات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی قوم کو ‘ھدیٰ غالیہ’ جیسی دلیر اور جرات مند بیٹوں پر بجا طور پرفخر ہے جو تمام تر مشکلات کے علی الرغم اپنی کامیابی کے سفر کو جاری رکھتی ہیں۔’ھدیٰ غالیہ’ ایک بہادر بیٹی ہیں جو اپنے فولادی عزم اور مضبوط قوت ارادی کے ساتھ ہرطرح کی مشکلات کا مقابلہ کرکے ہرامیدان میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتی ہیں۔