شنبه 16/نوامبر/2024

گھروں پر نظر بندی اور قید تنہائی کا عذاب جھیلنے والے فلسطینی بچے

جمعہ 24-جنوری-2020

نام نہاد صہیونی وحشی کینسر ایک ایسی رجیم ہے جو فلسطینی بچوں کے ساتھ تشدد کے بدترین حربے اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کے استعمال کی منظم پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

حراست میں لیے گئے فلسطینی مردوں، خواتین حتیٰ کہ نابالغ بچوں کو بھی طرح طرح کے ظالمانہ حربوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فلسطینیوں پرظلم ڈھانے میں پیش پیش یہ غیرملکی قابض نہتے فلسطینی بچوں کو اذتییں دینے کے لیے ان کے خلاف تشدد کے وحشیانہ طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔

اسرائیلی ریاست کے جنگی جرائم کا شکار ہونے والے 15 سالہ ابو غزالہ ہیں نہیں 18 مالہ قبل پرانے بیت المقدس کے باب الحطہ سے حراست میں لیا گیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گای ہے کہ ابو غزالہ کی پہلی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی جب اس کی عمر 14 سال تھی۔ اسے مسلسل کئی روز تک جسمانی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔

اسیران میڈیا سینٹر کی رپورٹ کے مطابق ابوغزالہ کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کو اسرائیلی فوج حراست میں لینے کے بعد اس پرالزام عاید کیا کہ اس نے یہودی آباد کاروں پر پٹرول بموں سے حملہ کیا ہے۔

ڈیڑھ سال تک حراست میں رکھنے کے بعد ابو غزالہ کو رہا کیا گیا مگر رہائی کے ساتھ اسے گھر پرنظربند رکھنے کی شرط رکھی گئی۔

والد کا کہنا ہے کہ صہیونی دشمن ہمارے بچوں سے ان کا بچپن چھین رہا ہے۔ بچوں کے کھیل کود کے دن ہیں۔ ان کے مستقبل کی بنیادیں رکھنے کے دن ہیں مگر صہیونی ریاست کی مجرمانہ پالیسی کے نتیجے میں ابو غزالہ اپنی پڑھائی میں دوسال پیچھے چلے گئے۔ انہیں آٹھویں اور نویں جماعت کے دوران حراست میں رکھا گیا۔

مصب ابو غزالہ اپنے گھرسے باہرقدم نہیں رکھ سکتے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی اسکول جاسکتے ہیں۔ وہ کھڑی سے اپنے دوستوں کو گھر کے باہر صرف کھیلتا دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے دوستوں اور دیگر رشتہ داروں کو بھی مصعب سے ملنے سے روک دیا گیا ہے۔

قید تنہائی

گھر میں طویل نظربندی کے بعد صہیونی فوج نے ابو غزالہ کو دوبارہ حراست میں لے کر فلسطینیوں کے خلاف اپنے حسد، نفرت اور دشمن کا ثبوت پیش کیا۔

اسرائیلی پولیس نے مصعب ابو غزالہ کو حراست میں لینے کے بعد المسکوبیہ حراستی مرکز میں ڈال دیا۔ وہاں سے اسے ایک ایسی جیل میں ڈالا گیا جہاں صہیونی جرائم پیشہ عناصر کو قید کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے ذریعے فلسطینی بچے کے والد نے مصعب کو وہاں سے دوسرے مقامات پر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا

صہیونی دشمن حکام نے ‘اوفیک’ نامی جیل میں مصعب ابو غزالہ کو رہا کرنے یا یہودی جرائم پیشہ مجرموں سے الگ کرنے کے بجائے الٹا اسے قید تنہائی میں ڈال دیا۔ اسے ہرطرح کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ اس سے تمام بنیادی انسانی حقوق اور ضروریات بھی سلب کرلیں۔

اس کے والد کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے کوایک ایسے عقوبت خانے میں ڈالا گیا جو انتہائی تنگ اور تاریک تھا۔ اسے آخری درجے کے کپڑے اور کھانا دیا جاتا۔ صہیونی دشمن نے اس کی چھوٹی عمر کا بھی کوئی خیال اور لحاظ نہ کیا اور اسے ہرطرح کے حقوق سے محروم کردیا گیا۔

مصعب ابو غزالہ کو 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی طرح الگ رکھنے کے بجائے جرائم پیشہ مجرموں کے ساتھ رکھ اسرائیل نے یہ ثابت کیا کہ اس کے ہاں انسانی حقوق نام کی کوئی چیز نہیں۔

مصعب کی والدہ کا کہنا ہے کہ میرے نہتے بچے کو اسرائیلی فوج نے قید تنہائی میں ڈالا۔ ہم نے اس سے ملاقات کی کوشش کی مگر طویل کوششوں کے بعد ہمیں بیٹے سے ملنے دیا گیا۔ ہم بچے کو پہچان بھی نہیں سکے کہ مگر ہمارے بچے کے حوصلے بلند تھے۔ تمام بنیادی حقوق چھن جانے کے باوجود مصعب ابو غزالہ صہیونی ریاست کے جرائم کے خلاف ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کررہے تھے۔

مختصر لنک:

کاپی