اسرائیلی ریاست کے فلسطینیوں کے خلاف جرائم کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے اور روزمرہ کی بنیاد پر اسرائیلی عقوبت گاہوں پر فلسطینیوں دی جانے والی اذیتیوں کے ہولناک مظاہر سامنے آ رہے ہیں۔
اس سلسلہ کی ایک تازہ کڑی ولید حناتشہ نامی ایک فلسطینی ہیں جنہیں صہیونی زندان میں جس بے دردی اور بے رحمی و وحشت کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس نے ایک بار پھر صہیونی ریاست کی فرعونیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ حناتشہ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس نے صہیونی ریاست کا مکروہ چہرہ اور فلسطینیوں پر مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا نیا موقع فراہم کیا ہے۔
اسیر ولید حناتشہ کے اہل خانہ تک دوران حراست قیدی پر کیے گئے تشدد کی تصاویر پہنچی ہیں اور ان تصاویر کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔ اس کے جسم پر تشدد اور اذیتوں کے واضح اور نمایاں آثار موجود ہیں۔ تشدد کرتے ہوئے قیدی کو جلایا گیا۔ اس کے دونوں پائوں ٹانگوں سمیت جسمانی کی نچلے حصے پر تشدد کے واضح نشانات موجود ہیں۔
حناتشہ کو اسرائیلی فوج نے تین اکتوبر 2019ء کوحراست میں لیا گیا۔ ان پر اگست کے آخر میں عین بوبین کے مقام پر کی گئی ایک کارروائی کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ اس حملے میں ایک صہیونی خاتون ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ ولید حناتشہ کا تعلق فلسطینی پاپولر فرنٹ سے بتایا جاتا ہے۔
حراست میں لینے کےبعد صہیونی جلادوں نے ولید حناتشہ کو تین الگ الگ تشدد کے سیشن میں اذیتوں کا نشانہ بنایا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کے وحشی جلاد باریاں بدل بدل کر نہتے فلسطینی پر مسلسل 12 دن تک دن رات تشدد کرتے رہے۔ تشدد کا دورانیہ چوبیس میں سےمسلسل 23 گھنٹے جاری رہا۔ ہر 8 گھنٹے کے بعد پہلے صہیونی جلاد چلے جاتے اوران کی جگہ نئے وحشی درندے لے لیتے۔
تشدد سے قبل گرفتاری
اسرائیلی جلادوں کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بننے والے ولید حناتشہ کی اہلیہ بیان حناتشہ نے بتایا کہ انہیں اس وقت یقین ہوگیا تھا کہ ولید کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ گرفتاری کے بعد نہ تو ان کے وکیل کو ان سے ملنے دیا گیا اور نہ ہی اہل خانہ کے کسی فرد کو ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔
بعض اسیران کے اقارب جو جیلوں میں ان سے ملنے گئے تھے نے قیدیوں کے حوالےسے بتایا کہ انہوں نے ولید حناتشہ کو حراستی مرکز میں وہیل چیئر پر دیکھا ہے۔ اسے بدترین اذتیں دی گئی ہیں۔
بیان حناتشہ کا مزید کہنا تھا کہ مجھے امید تھی کہ صہیونی جلاد میرے شوہر کو اذیتیں دیں گے۔ انہیں نہ صرف گرفتار کیے جانے کے بعد ہولناک تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ گرفتاری سے قبل بھی بدترین اذیتوں سے دوچارکیا گیا۔ جب انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو وہ ہربار یہی شکایت کرتے کہ وحشی جلادوں نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا ہے مگر صہیونی جلاد صفت جج اس کی بات پرتوجہ دینے کے بعد ہربار اس کی قید میں توسیع کردیتے۔
ولید حناتشہ کی سوشل میڈیا پروائرل ہونے والی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ صہیونی وحشی جلادوں نے اسے دوران حراست بدترین اذیتیں دی گئیں۔ بعد ازاں عدالت کی ہدایت پر اسرائیلی حکام نے ولید کو اسپتال منتقل کیا جہاں ڈاکٹروں نے اس پر تشدد کی تصاویر اس کےوکیل کو ارسال کیں جہاں سے وہ تصاویر سوشل میڈیا پروائرل ہوئیں۔
تشدد کے مکروہ حربے
اسیر کے وکیل نے بتایا کہ صہیونی جلادوں نے اس کے موکل پر تشدد کے پانچ مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے۔
حراستی مرکز میں لے جانے کے بعد اسے اتنا زیادہ مارا پیٹا گیا کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ اس کے ہاتھ اس کی کمر پرباندھے گئے تھے۔ تشدد کے باعث وہ سر کے بل فرش پر گر پڑے۔ اس کے بعد ایک صہیونی جلاد اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور اسے مزید بری طرح تشدد کا نشانہ بناتا رہا۔
اس کے بعد دو جلاد اس کے کندھے پر کھڑے ہوگئے اور اس کے سر اور داڑھی کے بال نوچنے لگے۔ یہ سب کچھ بدترین مار پیٹ کے ساتھ جاری رہا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ‘ضمیر فائونڈیشن’ کی رپورٹ کے مطابق بوبین کارروائی میں 40 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا اور ان میں سے 95 فی صد کو بدترین جسمانی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
انسانی حقوق کے مندوب رافت حمدونہ کا کہنا ہے کہ 51 سالہ فلسطینی قیدی پر تشدد کے جو آثار سامنے آئے ہیں وہ اسرائیلی ریاست کے جرائم کا واضح ثبوت ہے۔ حمدونہ کا کہنا ہے کہ سنہ1984ء میں طے پائے بین الاقوامی معاہدے میں قیدیوں سے غیرانسانی سلوک کی شدید مذمت کی گئی ہے۔