چهارشنبه 30/آوریل/2025

سال 2019ء میں فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری میں غیرمسبوق اضافہ

بدھ 15-جنوری-2020

فلسطینی علاقوں غرب اردن اور القدس میں اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کا نسل پرستانہ سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2019ء کے دوران القدس اور غرب اردن میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کے واقعات میں غیرمسبوق اضافہ ہوا ہے۔
 

اسرائیلی انسانی حقوق گروپ’بتسلیم’ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس مقبوضہ بیت المقدس میں 169 غیر رہائشی عمارتوں سمیت 265 املاک مسمار کی گئیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس القدس میں 13 فلسطینی خاندانوں کو اپنے مکانات خود ہی مسمار کرنے کا ریاستی جبر کا مظاہرہ کیا گیا۔ دسیوں مکانات اسرائیلی بلدیہ نے مسمار کرکے سیکڑوں فلسطینیوں کو مکان اور گھر کی چھت سے محروم کیا۔

اسرائیلی انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ صہیونی حکومت نہ صرف فلسطینیوں کے مکانات مسمار کرتی ہے بلکہ انہیں نئے گھر یا دیگر مقاصد کے لیے تعمیرات کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔

انسانی حقوق کی عالمی اور فلسطینی تنظیموں کا کہنا ہے کہ القدس اور غرب اردن میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کا مقصد فلسطینی آبادی کو وہاں سے نکل جانے اور ان کی جگہ یہودی آباد کاری کو فروغ دے کر آبادی کا غلبہ قائم کرنا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سنہ 2018ء میں القدس میں فلسطینیوں کے 59 مکانات مسمار کیے گئے جب کہ 2017ء کے دوران 61 گھروں کی مسماری عمل میں لائی گئی۔

سال 2004ء میں القدس میں 978 مکانات مسمار کیے گئے جس کے نتیجے میں 1704 فلسطینی بے گھر ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2019ء کے دوران غرب اردن میں فلسطینیوں کی 256 املاک مسمار کی گئیں۔ ان میں 106 غیر رہائشی اور دیگر ہائشی املاک شامل ہیں۔

سال 2006ء کے بعد اب تک 1525 مکانات مسمار کیے گئے۔ مکانات مسماری کے نتیجے میں 6 ہزار 660 فلسطینی متاثر ہوئے جن میں 3342 بچے تھے۔

مختصر لنک:

کاپی