یحییٰ عیاش اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے رکن ہی نہیں بلکہ فلسطین کے پہلے نوجوان انجینیرہیں جنہوں نے صہیونی دشمن کے خلاف جہاد آزادی میں حصہ لیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ انجینیر یحییٰ عیاش کی شہادت کو 24 سال ہوچکے ہیں۔
فلسطینی عوام یحییٰ عیاش کو ان کی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے گی۔ انہوں نے اپنی سائنسی معلومات اور تکنیکی مہارت سے فلسطینی تحریک مزاحمت کو ایک نئی جہت عطا کی۔ یہی وجہ ہے کہ قضیہ فلسطین کے لیے ان کی خدمات کو تا ابد یاد رکھا جائے گا۔
شہید یحییٰ عیاش کا پورا نام عبداللطیف عیاش تھا۔ وہ چھ مارچ 1966ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے ایمانم شجاعت، بہادری، جانثاری اور قرآن کریم حفظ کرنے کے ساتھ کئی دوسری خوبیوں کی تربیت حاصل کی۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم غرب اردن کے شمالی شہر سلفیت کے نواحی علاقےرافات کے اسکول میں تعلیم حاصل کی۔
انہوں نے سنہ 1991ء میں بیرزیت یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ سلفیت میں تعلیم کےحصول کے بعد انہوں نے اردن میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی کوشش کی مگر صہیونی حکام نے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا۔ ان کی درخواست پر انٹیلی جنس چیف ‘یعکوف پیریز’ نے لکھا کہ اگرہمیں علم ہو کہ کوئی انجینیر وہ کام کرے جو ہم چاہتے ہیں تو ہم نہ صرف بیرون ملک سفر کی اجازت دیں بلکہ ایک ملین ڈالر بھی اپنی طرف سے دیں۔
انہوں نے سنہ 1992ء کو اپنی خالہ زاد کے ساتھ شادی کی۔ جنوری 1993ء کو ان کے ہاں ایک بچی نے جنم لیا جس کا نام براء رکھا گیا۔ یحییٰ کی شہادت کے دو روز بعد ان کے ہاں ایک بچے نے جنم لیا۔ نولود کانام ان کی نسبت سے یحییٰ عبداللطیف عیاش رکھا گیا۔
جہادی سفر
انجینیر یحییٰ عیاش اس وقت اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ میں شامل ہوئے جب جماعت کے تاسیس کو کچھ ہی عرصہ گذرا تھا۔ حماس میں شامل ہوتے ہی انہوں نے جہاد کے سفر کا آغاز کردیا۔ اسرائیلی ریاست کے دارالحکومت تل ابیب میں بارود سے بھری ایک کار سے حملہ کیا گیا تو صہیونی فوج نے اس کا الزام یحییٰ عیاش پرعاید کیا۔ صہیونی فوج نے اس کارروائی کا منصوبہ ساز انہیں قرار دیا اور اس کے بعد ان کی تلاش شروع کردی۔
سنہ 1994ء میں الخلیل شہر کی تاریخی مسجد ابراہیمی میں قتل عام کے بعد انجینیر عیاش نے اسرائیلی ریاست کے قلب میں فدائی حملےکا منصوبہ تیار کیا۔ العفولہ میں پہلا فدائی حملہ مجاھد راید زکارنہ نے کیا جس میں 8 اسرائیلی ہلاک اور دسیوں زخمی ہوئے۔ اس کے بعد عمار عمارنہ نے الخضیرہ کے مقام پر فدائی حملہ کیا جس کے نتیجے میں 7 صہیونی جھنم واصل ہوئے۔
حماس نے یحییٰ عیاش کو غزہ اور غرب اردن میں عزالدین القسام بریگیڈ کا سربراہ مقرر کیا۔ انہوں نے براہ راست کئی عسکری کاروائیوں اور فدائی حملوں کی منصوبہ بندی کی اور ان کارروائیوں میں اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کیا۔ بارود سے بھری کاروں سے حملے کیے اور قابض فوج پر دھماکہ خیز مواد اور فدائی حملے کیے۔
اول درجے کا اشتہاری
متعدد فدائی حملوں کے بعد اسرائیلی فوج کی طرف سے شہید یحییٰ عیاش کو اشتہاری نمبرایک قرار دیتے ہوئے ان کی گرفتاری کے لیے مہم تیز کردی، صہیونی فوج کی طرف سے اُنہیں گرفتار یا شہید کرنے کے لیے سیکڑوں ایجنٹ بھرتی کیے۔
دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کو شہید یحییٰ عیاش پر بہت فخر تھا۔ ان کی عسکری مہارت اور جنگی کارروائیوں کی مہارت تننظیم کے لیے تحفے سے کم ۔ انہیں کئی القات سے نوازا گیا’ ان میں عبقری فائرفوکس’، ہزاروں چہروں والا کمانڈر، انجینیر، منصوبہ ساز، بہادر، بریگیڈ کا شاہین اور کئی دوسرے القابات شامل تھے۔
انجینیر یحییٰ عیاش کی جوانی جہاد کے میدان میں ایک بہادر شاہسوار کے طور پرگذری۔ صہیونی فوج کی طرف سے طویل عرصے تک ان کا تعاقب کیا گیا۔ بالآخر قابض فوج نے پانچ جنوری 1996ء کو غزہ کی پٹی کے علاقے بیت لاھیا میں ایک بم دھماکے میں شہید کیا۔ ان کی نماز جنازہ اور آخری دیدار کے موقع پرکم سے کم پانچ لاکھ افراد نے شرکت کی۔ جنازے میں شرکت سے یہ واضح ہوگیا کہ یحییٰ عیاش فلسطینی قوم کے عظیم ہیرو تھے اور قوم کو ان پر فخر تھا۔