جمعه 15/نوامبر/2024

‘معرکہ فرقان’ کے 11 سال بعد بھی غزہ ۔ اسرائیل جنگ جاری

ہفتہ 28-دسمبر-2019

27 دسمبر 2008ء کو اسرائیلی فوج نے فلسطین کے محصورعلاقے غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کی۔ یہ جنگ اس وقت مسلط کی گئی جب لاکھوں اہالیان غزہ پہلے ہی انتہائی سخت اور تباہ کن محاصرے کا شکار تھے اور وہاں پر نظام زندگی پہلے ہی مفلوج اور ابتر تھا۔

مقامی وقت کے مطابق دن کے ایک بج کر 27 منٹ پر اسرائیلی ریاست کے جنگی طیاروں سے غزہ کے فضاء کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ پہلے ہی مرحلے میں اسرائیل کے 80 طیارے غزہ کی فضاء میں آتش وآہن برسانے کے لیے موجود تھے۔ اگلےہی لمحے قابض صہیونی دشمن کے وحشی بمبار غزہ کے طول عرض میں بم اور میزائل برسانے لگے۔ شہری آبادیوں، سیکیورٹی مراکز، اسکولوں، اسپتالوں، مساجد اور دیگر پبلک مقامات کو بےدریغ نشانہ بنایا جانے لگا اور چند گھنٹوں کے اندر اندر دو سو فلسطینیوں کو شہید اور سیکڑوں کو زخمی کردیا گیا۔

خوف ناک مناظر

غزہ کے اسپتال ایک منٹ کےاندر زخمیوں سے بھر گئے۔ ہرطرف تڑپے انسانی لاشے، شہید ہونے والوں کے خون آلود جسد خاکی، آہ و بکاکرتے بچے اور عورتیں، تباہی اور بربادی کی داستانیں بیان کرتے درو دیوار، الغرض ہرطرف خوف اور دہشت کا سماں تھا اور موت کھلے عام رقص کررہی تھی۔

اس وقت غزہ کے محصور، نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں پرکیا بیت رہی تھی اس کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں۔ فلسطینیوں کا منظم انداز میں بے دردی کے ساتھ اجتماعی قتل عام جاری تھا۔ بلا تفریق ہرطبقے، شہر اور آبادی کو بم باری سے نشانہ بنایا جا رہا تھا۔

قابض صہیونی فوج کی طرف سے مسلسل 8 دن تک غزہ کے شہروں، قصبوں اور آبادیوں کو زمینی، بری اور فضائی حملوں سے نشانہ بنایا جاتا رہا۔ تباہ کن اسلحہ اور گولہ بارود استعمال کرکے جنگی جرائم کا کھلے عام استعمال کیا گیا۔

سیکڑوں گھر، مساجد اور گھروں کو نیست ونابود کردیا گیا۔ محصورین کو وائٹ فاس فورس سے نشانہ بنایا گیا۔ حالانکہ سفید فاسفورس کا استعمال عالمی سطح پر جنگی جرم تصور کیا جاتا ہے۔

اھداف اور بری جنگ

غزہ پرصہیونی ریاست کی ننگی جارحیت کے لیے دشمن نے خود اہداف متعین کیے۔ اسرائیلی میڈیا کے ذریعے سب سے اہم ہدف غزہ میں حماس کی طاقت کو کچلنا اور غزہ پراس کے اقتدار کو ختم کرنا تھا۔ اس کے علاوہ غزہ کی پٹی سے میزائل حملوں کی روک تھام کرنا اور غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے فوجی گیلاد شالیت کو بازیاب کرنا تھا۔

تین جنوری 2009ء کو 8 دن کے بعد قابض فوج اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر زمینی حملہ کردیا۔ اسرائیلی فوج کے ٹینک غزہ کی پٹی کے اندر داخل ہوگئے مگر فلسطینی مزاحمت کاروں کی شدید مزاحمت کی وجہ سے صہیونی فوج کے ٹینک زیادہ دور تک نہ جاسکے مگر ٹینکوں سے شدید گولہ باری شروع کردی گئی۔

اس کے بعد مسلسل 23 دن تک زمینی، فضائی اور سمندری حملے جاری رہے۔ کشت و خون کے باوجود فلسطینی مجاھدین اور حماس کے جانثاروں نے اسرائیلی دشمن کو اس کے اہداف کےحصول میں بری طرح ناکام بنا دیا۔

اس کے بعد صہیونی ریاست نے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ سے نکلنے کی تیاریاں شروع کیں تو فلسطینی مجاھدین کے راکٹ حملے اس کا تعاقب کرنے لگے۔ یہ اس امر کا واضح اظہار تھا کہ اسرائیل جنگ بندی پرمجبور ہوا ہے۔ فلسطینی قوم نے پورے عزم اس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو بازیاب کرانے، حماس کی طاقت کو کچلنے، غزہ پرحماس کا اقتدار ختم کرنے اور دیگر تمام مقاصد بری طرح ناکام رہے ہیں۔

فلسطینیوں نے اس جنگ کو معرکہ فرقان کا نام دیا جب کہ صہیونی دشمن نے اسے ‘لیڈ کاسٹ آپریشن’ کا نام دیا۔ یہ جنگ تو 23 دن کے بعد ختم ہوگئی تھی مگر یہ غزہ کے محصورین کی اسرائیلی دشمن کے ساتھ لڑائی بدستور جاری ہے۔ سنہ 2011ء کو اسرائیل نے گیلاد شالیت کی رہائی کے بدلے میں 1047 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرکے اپنی شکست ایک بار پھر تسلیم کرلی۔ سنہ 2012ء کو اسرائیلی فوج نے فلسطینی کمانڈر احمد الجعبری کو شہید کیا جس کے بعد ایک بار پھر جنگ شروع ہوگئی اور فلسطینی مزاحمت کاروں نے میزائلوں سے صہیونی ریاست کے دارالحکومت ‘تل ابیب’کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

سنہ 2014ء کی موسم گرما کی جنگ میں بھی اسرائیلی ریاست نے غزہ پر 52 دن تک مسلسل زمینی، فضائی اور بحری حملے کیے۔ اسرائیلی دشمن سوائے قتل وغارت گری اور تباہی پھیلانے کے اور کوئی مقصد حاصل نہیں کرسکا ہے۔ فلسطینی قوم کا عزم و استقامت اور جرات وحوصلہ مندی کا جذبہ بدستور موجود ہے۔

مختصر لنک:

کاپی