جولائی 2019ء کو اسرائیلی کابینہ نے فلسطین کے دریائے اردن کے مقبوضہ مغربی کنارے کے ‘سیکٹر C’ میں یہودی آباد کاروں کے لیے 715 گھر تعمیر کرنے کی منظوری دی۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے لیے چھ ہزار مکانات کی تعمیر کی منظوری دی۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں نے غرب اردن میں ہزاروں کی تعداد میں یہودیوں کے لیے مکانات کی تعمیر کو عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے، فلسطین پر اپنے ناجائز تسلط کو وسعت دینے بالخصوص غرب اردن کے سب سے بڑے سیکٹر پر اپنا تسلط مزید مضبو بنانے کی سازش قرار دیا۔
یاد رہے کہ سنہ 1993ء کو فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان ناروے کے شہر اوسلو میں طے پایا سمجھوتہ ‘اوسلو معاہدے’ کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے کے تحت غرب اردن کو تین سیکٹرز’اے بی اور سی’ میں تقسیم کیا گیا۔ اس میں سیکٹر’سی’ رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا سیکٹر ہے جو غرب اردن کے 61 فی صد رقبے پر مشتمل ہے۔ صہیونی ریاست اس سیکٹر پراپنے قبضے کی سازشوں پرعمل درآمد جاری رکھے ہوئے ہے اور صہیونیوں نے غاصبانہ قبضے کی نہ ختم ہونے والی ہوس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
سب سے بڑے سیکٹر کو نگلنے کی کوشش
ویسے تو پورے مغربی کنارے کو اسرائیل اپنے غاصبانہ قبضے اور تسلط میں لینے کی سازش کررہا ہے مگر سیکٹر سی رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا قطعہ ہونے کی بنا پرصہیونیوں کی توجہ کا خاص مرکز ہے۔ غب اردن کے تمام سیکٹرز سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے لیے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
تجزیہ نگار محمد الیاس کا کہنا ہے کہ اسرائیل غرب اردن پراپنا غاصبانہ اسٹیٹس مسلط کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔ فلسطینیوں کو گھروں کی تعمیر سے روکا جا رہا ہے۔ ان کے بنے بنائے مکانات مسمار کئے جا رہے ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں میں فلسطینیوں پر قدغنیں عاید کی جاتی ہیں۔ فوجی کیمپوں کے قیام کی آڑ اور نسلی دیوار کی تعمیر کے بہانے فلسطینی اراضی غصب کرکے مقامی فلسطینی آبادی کو ان کی قیمتی اراضی سے محروم اور بے دخل کیا جا رہا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے محمد الیاس کا کہنا تھا کہ اوسلو معاہدے نے غرب اردن کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا ہے۔ اس علاقے کی تقسیم اسرائیل کی سازش تھی اور اس وقت کی فلسطینی قیادت بھی نام نہاد فلسطینی ریاست کے جھانسے اور سراب میں آ گئی۔ اسرائیل اپنے عالمی اوباش اتحادیوں کے ساتھ مل کر فلسطینی علاقوں مزید تقسیم کرنا چاہتا تھا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں فلسطینی کمزور اور صہیونی دشمن کو تقویت پہنچانا تھی۔ اگلے مرحلے میں اسرائیل کے لیے ان سیکٹرز میں یہودی آباد کاروں کے لیے مکانات کی تعمیر اور دیگر تعمیرات کو آسان بنانا تھا۔
اقوام متحدہ کے جمع کردہ اعدادو شمار کے مطابق اس وقت ‘سیکٹر C’ میں 532 قصبوں اور دیہاتوں میں دو لاکھ 97 ہزار فلسطینی آباد ہیں۔ فلسطینیوں کی یہ آبادیاں دنیا کے معاصر بنیادی سہولیات سے اس لیے محروم کیونکہ اسرائیل ان فلسطینیوں کو سہولیات سے محروم کرکے وہاں سے ھجرت پرمجبور کررہا ہے۔ اب بستیوں کو 198 بڑی اور 220 ہنگامی بنیادوں پربنائی گئی چھوٹی یہودی کالونیوں کے ذریعے گھیرا گیا ہے اوران میں 8 لاکھ 24 ہزار یہودی بسائے گئے ہیں۔
عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل ‘سیکٹر C’ کے 68 فی صد رقبے کو کسی نا کسی شکل میں قبضے میں لے چکا ہے۔ فلسطینیوں کو عملا اس کے سرف ایک فی صد علاقے پرآزادانہ کام کی اجازت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے’اوچا’ کے مطابق مقامی فلسطینی آبادی کو غرب اردن کے ‘سیکٹر C’ کے 30 فی صد علاقے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ یہ علاقہ مختلف فوجی کیمپوں کے ذریعے قبضے میں لیا گیا ہے۔
تجزیہ نگار الیاس کا کہنا ہے کہ سنہ 1967ء کی جنگ میں غرب اردن پر اسرائیلی ریاست کے قبضے کے بعد اسرائیل نے سیکٹر سی کے علاقے میں فوجی آرڈرز کے ذریعے فلسطینی اراضی غصب کرنے کا سہارا لیا۔
گذشتہ تین ماہ کے دوران اسرائیل نے غرب اردن میں فلسطینیوں کے 136 مکانات مسمار کیے، القدس میں 48 اور سیکٹر میں 88 مکانات مسمار کیے گئے۔ مسماری کی کارروائیوں کے نتیجے میں صرف سیکٹر سی میں 97 بچوں اور 57 خواتین سمیت 218 فلسطینی متاثر یا بے گھر ہوئے۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ’بتسلیم’ کے مطابق سنہ 2006ء کے بعد اب تک اسرائیل فلسطینیوں کو 1500 گھروں سے محروم کرچکا ہے جس کے نتیجے میں چھ ہزار فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔
نسلی تطہیر
اسرائیلی امور پرنظر رکھنے والے فلسطینی دانشور عمر جعارہ نے غرب اردن کے ‘سیکٹر C’ میں یہودی توسیع پسند پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صہیونی ریاست کو غرب اردن میں کسی بھی علاقے پرقبضے کے فیصلوں کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل کی آئیڈیالوجی، اس کے انتہا پسند سیاست دانوں اور صہیونی ریاست کی نسل پرستی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں قبضہ کرلیتے ہیں۔ فلسطینیوں کی چیخ پکار، انسانی حقوق کا واویلا اور عالمی اداروں کی قراردادیں بھی اسرائیل کو اس کی توسیع پسندی کی ہوس سے باز نہیں رکھ سکتی۔
جعارہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قابض اسرائیل ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔نہ تو عالمی معاہدوں میں اور نہ ہی صہیونی یہودی آئیڈیالوجی میں فلسطینیوں کے لیے کوئی جائے امان ہے۔
تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ غرب اردن کے ‘سیکٹر C’ میں اسرائیل کو کچھ کررہا ہے وہ فسلطینیوں کی نسل کشی اور نسلی تطہیر کے مترادف ہے۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیر دفاع نفتالی بینیٹ نے کہا تھا کہ وہ حکومت سے سیکٹر سی کو جو غرب اردن کے 60 فی صد رقبے پر مشتمل کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان کرے۔ سنہ 2017ء میں اسرائیل کے مرکزی ادارہ شماریات کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ غرب اردن میں یہودی آباد کاروں کی تعداد 4 لاکھ 13 ہزار 400 ہے۔