امریکا اور طالبان کے درمیان ایک ہفتے قبل ہی امن مذاکرات بحال ہوئے تھے لیکن گذشتہ جمعرات کو افغان دارالحکومت کابل کے شمال میں امریکا کے ایک فوجی اڈے پر طالبان کے حملے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے یہ مذاکرات عارضی طور پر معطل کردیے ہیں۔اس حملے میں دو شہری ہلاک اور دسیوں زخمی ہوگئے تھے۔
افغانستان میں اس وقت تیرہ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔امریکی نشریاتی ادارے این بی سی نے تین موجودہ اور سابق عہدے داروں کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان سے چار ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔دو امریکی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ ان میں سے بعض فوجیوں کو ازسرنو تعینات کیا جاسکتا ہے جبکہ دوسروں کی مدت پوری ہونے کے بعد ان کی جگہ نئے فوجی تعینات نہیں کیے جائیں گے۔
سی این این نے ایک امریکی عہدے دار کے حوالے سے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسی ہفتے فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کرسکتی ہے لیکن انخلا کے نظام الاوقات میں لچک ہوسکتی ہے۔
امریکا اور طالبان نے گذشتہ چند سال کے دوران میں مذاکرات کے بعد ستمبر میں ایک سمجھوتے کے مسودے سے اتفاق کیا تھا۔اس کے تحت طالبان کو بعض سکیورٹی اقدامات کی پابندی کرنا ہوگی۔ انھیں افغان حکومت سے مذاکرات کرنا ہوں گے اور امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کی صورت میں تشدد کا سلسلہ بھی کم کرنا ہوگا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ستمبر ہی میں طالبان کے افغانستان میں نیٹو فوجیوں پر حملے کے بعد مذاکرات اچانک ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا اور طالبان سے کیمپ ڈیوڈ میں طے شدہ ملاقات بھی نہیں کی تھی۔انھوں نے 28 نومبر کو کابل کے نزدیک بگرام ہوائی اڈے کا اچانک دورہ کیا تھا اور اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ وہ ماضی میں اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ بیرون ملک تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کریں گے اور جہاں امریکی فوجیوں کی ضرورت نہیں ہے، وہاں سے انھیں واپس بلا لیا جائے گا۔
ظ