اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کو گذشتہ کچھ عرصے سے سیاسی اور قانونی محاذوں پر مسلسل ناکامیوں کا سامنا ہے۔ نیتن یاھو طویل سیاسی کیریئرجس میں وہ فلسطین۔ عرب کشمکش کو صہیونی ریاست کے حق میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہونے کے باوجود اس وقت مشکل سے دوچار ہیں۔
نیتن یاھو کے پاس تمام راستے اور آپشن ختم ہو رہے ہیں۔ وہ ایک سال کے دوران دوبار کنیسٹ کے انتخابات جیتنے کے باوجود حکومت کی تشکیل میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے سیاسی حریف ‘کاحول لاوان’ کے سربراہ بینی گینٹز کے ساتھ اختلافات مزید سخت ہوگئے ہیں۔
قانونی محاذ پرنیتن یاھو پر رشوت، خیانت اور دھوکہ دہی کے تین الگ الگ مقدمات قائم ہیں۔ حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی عدلیہ کی طرف سے نیتن یاھو کے خلاف لہجہ مزید سخت کردیا گیا ہے۔ عدلیہ کی طرف سے بھی نیتن یاھو کو ٹھنڈی ہوائیں نہیں مل رہی ہیں بلکہ عدالتوں کا رویہ نیتن یاھو کو سیاسی اور قانونی میدان میں نجات دلانے کے بجائے ان کے لیے مایوسی میں اضافہ کررہا ہے اور اس کے نتیجے میں نیتن یاھو کل کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جاسکتے ہیں۔
اسرائیلی پراسیکیوٹر جنرل افیحائی منڈل بیلٹ نے چند روز قبل نیتن یاھو کے تین الگ الگ کیسز، 1000، 2000 اور 4000 پر ان کے خلاف فرد جرم عاید کی۔
کیس 1000 میں نیتن یاھو پر اسرائیل کے ہالی وڈ کے پروڈیوسر ارنون میلشن اور آسٹریلوی ارب پتی جیمز باکر کو تجارتی اور کاروباری فواید پہنچانے پر سات لاکھ شیکل کے بیش قیمت تحائف وصول کرنے کا الزام ہے۔
کیس 2000 میں نیتن یاھو پرالزام ہے کہ انہوں نے اخبار’یدیعوت احرونوت’ کے مالک ارنون موزیس کو سرکاری اشتہارات دلائے جس کے بدلے میں اس اخبار نے نیتن یاھو کی انتخابی مہم چلائی تھی۔
کیس 4000 میں ویلا نیوز ویب سائٹ کےبانی اور سائٹ کو فایدہ پہنچایا گیا۔
مشکل آپشن
نیتن یاھو کے پاس اب کافی مشکل آپشن بچے ہیں۔ ان کی ماضی کی اسرائیل کے لیے خدمات کے عوض بن گوریون کی طرح عام معافی دی جائے تو نیتن یاھو کی گلو خلاصی ہوسکتی ہے۔
جیل میں قیدیوں کا لباس صرف نیتن یاھو کے مقدر میں دکھائی نہیں دیتا بلکہ صہیونی ریاست کے دو سابق وزراء اعظم ایہود اولمرٹ اور موشے قزائو بھی جیلوں کی ہوا کھا چکے ہیں۔
اسرائیلی امور کے تجزیہ نگار محمد مصلح کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو حکومت کی تشکیل میں ناکام ہونے کے بعد اب قانونی محاذ بھی ناکامی کا سامنا کرنے والے ہیں۔ وہ اسرائیل میں نہ تو نئی حکومت تشکیل دے سکے اور نہ وہ مقدمات میں خود کو بری کرسکے ہیں۔
آخری بادشاہ
نیتن یاھو کا شمار اسرائیلی ریاست کی تاریخ میں ان وزراء اعظم میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کی۔ وہ صہیونی ریاست کے بانی بن گوریون سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔
تجزیہ نگار مصلح کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو اب فرار کی راہ تلاش کرتے ہیں مگر لگتا ہے کہ انہیں اب بھاگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔
اخلاقی طور پررشوت وصول کرنے کے الزام کے بعد نیتن یاھو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ جب تک ان کے خلاف عدالت میں کیسز چل رہےہیں انہیں اقتدار پر فائز نہیں رہنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ نیتن یاھو کے خلاف مقدمات اورسیاسی میدان میں ناکامیوں کے بعد ان کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ انہیں اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ صدر کی طرف سے عام معافی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ طویل ترین حکومت کرنے کی وجہ سے نیتن یاھو کو معافی مل جائے کیونکہ وہ اسرائیلی ریاست کی تاریخ میں 4 مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں۔ جب کہ صہیونی ریاست کے بانی لیڈر بن گوریون تین بار وزیراعظم بنے۔
جہاں تک نیتن یاھو کی کامیابیوں کا تعلق ہے تو وہ فلسطینیوں میں پھوٹ پیدا کرنے اور عربوں کے ساتھ کشمکش کو اسرائیلی ریاست کے حق میں ہموار کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔