سوموار 11 نومبر سنہ 2019ء کو فلسطینی لیڈر یاسر عرفات (ابو عمار) کی وفات کی 15 ویں سالگرہ منائی جاتی ہے۔ یاسر عرفات ایک پراسرار اس بیماری سے فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے ایک اسپتال میں فوت ہوگئے تھے۔ماہرین نے ان کی وفات کے بعد تحقیقات کی اور اس نتیجے پر پہنچے کے انہیں ایک مہلک زہر دی گئی تھی۔
حالات زندگی
یاسر عرفات 4 اگست 1929 کو مقبوضہ بیت المقدس میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام محمد یاسر عبد الرؤف داؤد سلیمان عرفات القدوہ الحسینی تھا۔ انہوں نے قاہرہ میں تعلیم حاصل کی اور سنہ 1956ء میں مصر کے خلاف سہ فریقی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں مصری فوج کے ایک ریزرو افسر کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔
انہوں نے قاہرہ کی فواد اول یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی فیکلٹی سے تعلیم حاصل کی۔ چونکہ انہوں نے جوانی میں فلسطین طلباء یونین میں اپنی سرگرمیوں کے ذریعے فلسطینی قومی تحریک کی بحالی میں حصہ لیا تھا۔ بعد میں وہ اس تنظیم کے صدر منتخب ہوئے۔
انہوں نے سنہ 1950ء میں تحریک فتح کے قیام میں حصہ لیا اور اس کے بعد جماعتو کے ترجمان مقرر ہوئے۔ فروری 1969 میں پی ایل او ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
سنہ 1974ء میں ابو عمار نے فلسطینی عوام کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے نیویارک میں منعقدہ اجلاس میں ایک تقریر کی۔ اس موقع پر ان کا ایک جملہ کافی مشہو ہوا کہ "میں ایک ہاتھ سے باغی گن اور دوسرے میں زیتون کی شاخ لے کر آیا ہوں۔ میرے ہاتھ سے سبز شاخ نہ گراؤ۔”
فوجی اور سیاسی زندگی
ان کا قتل فلسطینی کاز کے حوالے سے ایک معمہ بن گیا۔ آج تک ان کی موت کے اصل ذمہ داروں کو سامنے لانے کا مسلسل مطالبہ قومی مطالبہ بن چکا ہے۔
مرحوم فلسطینی رہ نما یاسر عرفات نے ‘فتح’ کے عسکری ونگ کی قیادت کی۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں خلیل وزیر ابوجہاد اور صلاح خلف ابو ایاد اور دیگر افراد کی ساتھ مل کر 31 دسمبر 1964 کی شام مقبوضہ فلسطینی علاقے میں واٹر اسٹیشن کو اڑانے کی کوشش کرکے گوریلا پہلا آپریشن کا آغاز کیا۔ وہ آپریشن ایلا بون کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جنوری 1965 کے پہلے دن تحریک فتح کے ایک اجلاس میں انہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
اپنے چارعشروں کے عہد میں عرفات نے فتح کی سربراہی کی اور فلسطینی مقاصد پر واضح اثر ڈالا۔ 1969 میں ، وہ پی ایل او کے منتخب صدر بنے۔
انہوں نے سنہ1974ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کی دعوت قبول کی۔ سنہ1967ء کی سرحدوں کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کا آپشن پیش کیا اور اپنے مشہور جملے "سبز شاخ کو میرے ہاتھ سے نہ گراؤ” میں امن کی خواہش کا اظہار کیا۔
انتفاضہ اور سیاسی مواقع
یاسرعرفات نے پہلا فلسطینی انتفاضہ سنہ 1987-1994ء کو "امن کے لیے زمین” کے اصول کے مطابق پی ایل او میں شامل ایک بین الاقوامی کانفرنس کے ذریعے سیاسی تصفیہ کے عمل کو آگے بڑھنے کا موقع دیا انہوں نے تحریک انتفاضہ کے دوران بھی اپنا امن فارمولہ پیش کیا جو پہلی بار 1988ء کو پیش کرچکے تھے۔
سنہ 1991 کے موسم خزاں میں خلیج جنگ کے بعد فلسطین کے نمائندوں نے عرفات کے ہمراہ میڈرڈ کانفرنس میں شرکت کی۔ اس کانفرنس میں اردنی وفد بھی شامل تھا۔ یہ کانفرنس امریکا کی میزبانی میں کی گئی جسے مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے آغاز کام دیا گیا۔
ناروے کے اوسلو میں پی ایل او کی قیادت اور اسرائیلی حکومت کے مابین خفیہ مذاکرات کرنے کے بعد عرفات نے 1993 میں یہودی ریاست کے ساتھ "اصولی اعلامیے’ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے ، جس میں غزہ اور اریحا میں فلسطینیوں کی خودمختاری کے قیام کان اعلان کیا گیا جب کی پی ایل او نے اس کے بدلے میں اسرائیل کو ایک حقیقت کے طور پرتسلیم کرلیا۔
امن نو بل انعام، فلسطین واپسی اور وفات
سنہ 1994ء کو فلسطین کی عبوری حکومت کے معاہدے پر دستخط ہوئے ، جبکہ عرفات کو اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم اسحاق رابین اور وزیر خارجہ شمعون پیریز کے ساتھ مل کر نوبل امن انعام سے نوازا گیا تھا۔
یاس عرفات 1994 میں "اوسلو معاہدے” کے تحت فلسطینی علاقوں میں داخل ہوئے اور 1996 کے اوائل میں ایک بڑی اکثریت سے فلسطینی اتھارٹی کے صدر منتخب ہوئے۔
کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کی ناکامی اور فلسطینی ریاست کے اعلان کے بار بار ملتوی ہونے کے بعد فلسطینیوں میں صہیونی ریاست کے خلاف غم وغصہ بڑھ گیا۔ ستمبر 2000 کے آخر میں انتفاضہ الاقصیٰ پھوٹ پڑی۔ اس تحریک کی بنیادی وجہ ایریل شیرون کا اشتعال انگیز دورہ مسجد اقصی بنا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ صدرعرفات امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کے خلاف میزالٹنا چاہتے تھے۔
اتفاضہ الاقصیٰ انتفاضہ کے دوران مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی افواج نے غیرمعمولی جنگی مہمات اور کریک ڈائون شروع کردیا۔ یاسر عرفات کو بھی ان کے رام اللہ میں قائم ہیڈ کواٹر میں محصور کردیا گیا۔
صدر یاسر عرفات نے اپنے آخری تین سال رام اللہ میں صدارتی ہیڈکوارٹر کے اندر تنہائی میں گزارے ۔ رام اللہ میں ان کی حالت مسلسل بگڑتی چلی گئی۔ چنانچہ انہیں علاج کے لیے فرانس لیے جایا گیا جہاں وہ تین ہفتوں کے بعد 11 نومبر کو دار فانی سے کوچ کرگئے۔
موت کی تحقیقات
توفیق طیراوی قیادت میں یا سرعرفات کی موت کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ انہوں نے ایک سے زاید مواقع پرشواہد کی روشنی میں بتایا عرفات کے قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ نے برسوں قبل عرفات کی موت کے حالات کا انکشاف کیا کہ "تحقیقاتی کمیٹی اس شخص تک پہنچی جس نے یہ قتل کیا تھا۔”
طیراوی نے کہا کہ ابھی ایک چھوٹا سا معمہ باقی رہ گیا ہے۔ قتل کی باقی تفصیلات کو ظاہرکرنے کے لیے ابھی وقت مناسب نہیں تاہم انہوں نے مشتبہ شخص اور تحقیقات کی پیشرفت کے بارے میں مزید معلومات دینے سے انکار کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ "اسرائیل کو اس قتل کی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی۔”
25 نومبر سنہ 2012ء کو روسی ، فرانسیسی اور سوئس ماہرین نے رام اللہ میں مقبرہ کھولنے کے بعد عرفات کے جسم کے نمونے لیے تاکہ وہ موت کی وجہ کا جائزہ لے سکیں۔
ماہرین نے اس قتل کے مفروضے کو مسترد کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یاسر عرفات کی باقیات ریڈوب گیس کی تابکاری کے اثرات نمایاں دیکھے گئے ہیں۔
تاہم لوزان انسٹی ٹیوٹ برائے ریڈیولوجیکل نے 2012ء میں قطر میں مقیم الجزیرہ سیٹلائٹ چینل کے ذریعہ نشر کی جانے والی تحقیقات میں انکشاف کیا تھا عرفات کی باقیات میں "ریڈیو ایکٹیو پولونیم” کی موجودگی اس تخمینے کو تقویت دیتی ہے کہ انھیں زہر دیا گیا تھا۔
یاسرعرفات کی نماز جنازہ قاہرہ میں ادا کی گئی اس کے بعد ان کا جسد خاکی رام اللہ لایا گیا جہاں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔