فلسطین میں ویسے تو کئی فلسطینی خاندان ایسے ہیں جو شہد کی تیاری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ انہی میں ایک معمر فلسطینی الحاج عبدالفتاح علی ابو حسنہ ہیں جن کی عمر 96 سال ہوچکی ہے۔
فلسطین پر اسرائیلی ریاست کے غاصبانہ قیام اور صہیونی مافیائوں کے حملوں کے وقت عبدالفتاح نوجوان تھے۔ 72 سال پیشتر جب فلسطین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے یہودی اور صہیونی لشکر چڑھ دوڑے تو ان کے متاثرین میں عبدالفتاح علی ابو حسنہ اور اس کا خاندان بھی شامل تھا۔
الحاج علی ابو حسنہ کا خاندان اندرون فلسطین کے ‘بشیت’ گائوں سے تھا۔ دیگر علاقوں کے ہزاروں فلسطینیوں کی طرح عبدالفتاح علی ابو حسنہ کے خاندان کو بھی ہجرت کرکےغزہ میں آباد ہونا پڑا۔
چھیانوے سال کی عمرمیں بھی وہ لاٹھی کے سہارے تھوڑا بہت چل لیتے ہیں مگران کی بینائی کافی حد تک ختم ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب اسرائیلیوں نے ان کے گائوں پر چڑھائی کی تو اس وقت ‘بشیت’ کی آبادی 18 ہزار نفوس پرمشتمل تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ جب قابض صہیونیوں نے ان کے گائوں پر چڑھائی کی تو انہیں اس کی اچھی طرح یاد ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ قصبہ بشیت میں سنہ 1948ء میں فلسطینیوں اور قابض صہیونی جتھوں آمنے سامنے آنے کے بعد شدت کی لڑائی شروع ہوگئی۔ فلسطینیوں کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلح صہیونی جتھوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتےہوئے درجنوں فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔ بہت سے فلسطینی بشیت میں اس وقت مقامی آبادی کی مدد اور نصرت کے لیے بھی آئے۔
ابو حسنہ مقبوضہ قصبہ بشیت کے سب سےمعمر شہری ہیں۔ غزہ کی پٹی میں سب شہد کی سب سے پرانی دکان انہی کی ہے۔ حال ہی میں ان کی بینائی کافی متاثر ہوئی ہے مگرشہد کی مکھیوں اور شہد کےحصول میں انہیں گہرا تجربہ اور ملکہ حاصل ہے۔
شہر کے شہداء
مقبوضہ فلسطین کی پرانی اور تاریخی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے الحاج ابو علی حسنہ کے چہرے کی گہری جھریوں کو کھینچ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بشیت میں بھی ان کا خاندان شہد کے پیشے سے منسلک تھا۔ وہ اس دور کی خوبصورت زندگی اور ھجرت کے مصائب اور اس کے بعد کی طویل مشکلات بھری ہجرت کی زندگی کو کبھی نہیں بھول سکتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زندگی کے ابتدائی ایام میں جب فلسطین برطانوی استبداد کے قبضے میں تھا انہوں نے تعمیرات شعبے میں کام کیا۔ اس دور میں ساتھ ساتھ شہد کی مکھیاں پالنا بھی شروع کردیں۔
سنہ 1948ء میں نکبہ کے بعد علی ابو حسنا شادی کی اور ان کے 10 بچے پیدا ہوئے ، جن میں سے ایک 2008 کی غزہ جنگ کے پہلے دن شہید ہوگیا تھا۔ ان کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کی تعداد 100 سے زاید ہوچکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے یبنا قصبے میں عرب فوج کا انتظار کیا اور پھر اس کو چھوڑ کر اسدود چلے گئے یہاں تک کہ میں کچھ دن بعد مصری فوج پہنچ گئی۔ اس کے بعد میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ غزہ کی پٹی میں ہجرت کرآیا۔ پہلے البریج کیمپ پناہ گزین کیمپ اور اس کے بعد نصیرات کیمپ میں آباد ہوا۔
ابو حسنہ کو کئی سال کی کوشش کے بعد امیگریشن لی اور مقبوضہ شہر بشیت میں گیا جہاں اس نے دیکھا کہ ان کے آبائی مکان میں ایک یہودی خاندان آباد ہے۔
اگرچہ ابوحسنہ مقبوضہ فلسطین میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ البتہ وہ حافظ قرآن ہیں۔ تھوڑی بہت انگریزی اور پولش بھی بول لتےہیں۔ انہیں مختلف عرب شعراء کا کلام بھی یاد ہے اور قومی اور ملی نغمےبھی گنگناتے رہتےہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد انہوں نے برطانیہ کے زیرانتظام بعض منصوبوں میں کام کیا جہاں بولیویا اور برطانیہ کے لوگ کام کرتےتھے۔ انہوں نے انگریزی اور پولش زبانیں انہی سےسیکھیں۔ وہ ان کی ترجمانی بھی کرتے۔
انہیں شاعر ابو فراس الحمدانی کے کئی اشعاری یاد ہیں اور وہ انہیں پڑھتے بھی رہتے ہیں۔
ابوحسنہ باقاعدگی کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں اور روزانہ صبح کا آغاز سورہ فاتحہ سے کرتے ہیں۔ وہ طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک تلاوت کلام پاک میں مشغول رہتےہیں۔
فلسطین کا شہید
غزہ وادی کے قریب اپنے گھر میں الحاج ابو حسنہ نے زیتون اور لیموں کے کثیر تعداد میں درخت اگا رکھے ہیں۔ ان کا گھر شہد کی مکھیوں کے فارم کا درجہ رکھتا ہے اور یہ ان کی روز مرہ کی زندگی کے پروگرام کا حصہ ہے۔
وہ شہد کی مکھیوں کے لکڑی کے ڈبوں کے ساتھ ساتھ چہل قدمی کرتےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہار کے موسم میں اترنے والا شہد ہے ستمبر کے شہد سے بہتر ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نے غزہ کی پٹی میں تعمیراتی کام کیے مگر جلد ہی شہد کی تیاری اور شہد کی مکھیاں پالنا شروع کردی۔ پھر سات دہائیوں سے حالیہ عرصہ تک شہد کی مکھیوں کی پرورش جاری رکھی۔ شہد کی مکھیاں پالنا سب سے بہتر چیز ہے کیونکہ وہ آپ کو فطرت سے زندگی بخشا کرتے ہیں ، اور مقبوضہ فلسطین میں شہد کی مکھیوں کی حفاظت بہتر ہے۔ یہاں پر پھول بہ کثرت پائے جاتے ہیں جو شہد کی مکھیوں کو بہتر ماحول فراہم کرتے ہیں۔
ابو حسنہ اب بھی اپنے آبائی شہر بشیت کو یاد کرتے رہتےہیں اور اس کی سرزمین کے لیے آرزو مندانہ اندازمیں دعا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے اپنی زمین، باغات، درخت اور شہد کے چھتے نہیں بھولتے جنہیں ہم چھوڑنے پر مجبور کردیے گئے تھے۔