فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے دفتر میں قابض صہیونیوں کا استقبال اور ان کے لیے پرتکلیف ضیافتیں کوئی نئی بات نہیں۔ حال ہی میں غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی ‘ابارا منگسٹو’ کے اہل خانہ نے رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈکوارٹرصدر عباس سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں صدر عباس نے غزہ میں جنگی قیدی بنائےگئے اسرائیلی کی رہائی کے لیے کوششوں کو آگے بڑھانے کا وعدہ کیا۔
رام اللہ میں اسرائیلی فیملی کا والہانہ استقبال ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب اسرائیلی جیل میں مجرمانہ غفلت کے باعث ایک فلسطینی کی بسام السائح کی شہادت کے واقعے کے بعد پیش آیا۔ بسام السائح سنہ 2015ء سے کینسر، امراض قلب اور کئی دوسرے خطرناک امراض کا شکار رہے اور انتہائی بے رحمی کے ساتھ جام شہادت نوش کرگئے۔
اس کے علاوہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کے دفتر میں قابض صہیونی خاندان کا استقبال ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیل کی جیلوں میں 29 فلسطینی اپنے آئینی اور قانونی حقوق کے لیے بھوک ہرتال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ہڑتال اس وقت شروع کی گئی جب قابض صہیونی جیلروں نے جیمر نصب کردیے۔
انصاف کی بھیک
غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجی کی کے والد نے کہا میرے بیٹے منگسٹگو کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ مجھے نہیں معلوم اسے کہاں رکھا گیا ہے۔ میں نے اسے پانچ سال سے نہیں دیکھا۔ میں نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ اسے کن شرائط میں حراست میں لیا گیا ہے؟ کیا وہ دوا لے رہا ہے یا نہیں؟ میرا بیٹا کسی پر حملہ کرنے نہیں گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بیمار ہئ ، اور تب سے مجھے نیند نہیں آ رہی۔ میں آپ کو فلسطینی عوام کے رہنما کی حیثیت سے مخاطب کر رہا ہوں۔آپ ہماری مدد کریں، ہمیں معلومات فراہم کریں۔ ہم نے پانچ سال سے جہنم میں جی رہے ہیں۔
عبرانی ٹی وی چینل نے میٹنگ میں شریک شخصیات کے حوالے سے بتایا ہے کہ مینگیسٹو کے والد نے ایک موقع پر خود کو زمین پر گرادیا دیا اورصدر عباس سے اپنے بیٹے کے معاملے میں ثالثی کرنے اور اس کی حالت جاننے کے لئے التجا کرنے لگے۔
محمود عباس نے اپنی طرف سے جواب دیا: "میں نے آپ کے جذبات معلوم کرلیے۔ آپ کا بیٹا لڑائی کا شکار ہوا۔ میں آپ کو کم سے کم معلومات تلاش کرنے میں مدد کے لئے حل ڈھونڈ رہا ہوں .. یہ مغربی کنارے میں نہیں ہوتا .. اسرائیلی راستہ بھول کر ہمارے پاس آجاتے ہیں اور انہیں اسرائیل کو واپس کردیتے ہیں۔ میں کسی کو جنگی قیدی بنانے خلاف ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ "بدقسمتی سے حماس پرمیرا اثر و رسوخ اور کنٹرول نہیں ہے ، لیکن میں متعدد فریقوں کو جانتا ہوں جو معلومات حاصل کرنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں مجھے اچھی خبر ملے گی۔”
محمود عباس نے کہا کہ "میں آپ کو معلومات حاصل کرنے میں مدد کرنے کے لیے اپنے اختیار میں تمام ذرائع استعمال کروں گا۔” جب کہ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ان کا کیا مطلب ہے۔
عباس اسرائیلی جیلوں میں قید 7000 سے زیادہ قیدیوں کے درد اور زخموں کو فراموش کر چکے ہیں ، جن میں سے 700 کے قریب افراد موت کے خطرے سے دوچارہیں اور انہیں انتہائی مشکل حالات میں قید رکھا گیا ہے۔
محمود عباس قوم کی ترجمانی کریں
اسی سیاق میں اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو قوم کے اصل مطالبات کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ انہیں صہیونیوں کو ریلیف فراہم کرنے کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کےسربراہ محمود عباس فلسطینی اسیران کے اقارب کو بھی ملاقات کا وقت دیں گے اور غزہ میں اسیران کے اہل خانہ کی کفالت کے لیے دی جانے والی رقم بحال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مغوی اسرائیلی فوجیوں کے اہل خانہ کو اپنے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو پر دبائو ڈالنا چاہیے کیونکہ قیدیوں کے تبادلےمیں تعطل کے ذمہ دار نیتن یاھو ہیں۔
محمود عباس کی دوغلی پالیسی
تجزیہ کار اور سیاسی مصنف ، یاسین عزیزالدین کا کہنا ہے صدر عباس نے دھمکی دی تھی کہ وہ نیتن یاہو کے وادی اردن کو الحاق کرنے کے فیصلے کے جواب میں قابض اسرائیلی ریاست کے ساتھ ہونے والے معاہدوںکو ختم کردیں گے مگراس بیان کے دو روز بعد انہوں نے غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے مینگسٹو کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے اپنے ہی موقف سے انحراف کیا ہے۔
مصنف ایاد القرانے سنجیدہ انداز میں کہا ہے: ” مینگیسٹو کواپنے بیٹے کو حماس سے بازیاب کروانے کے لئے صدر عباس کی طرف سے یقین دہانی اور وعدہ حیران کن ہے۔
شہید عبد الحمید ابو سرور کی والدہ جن کی لاش اسرائیلی فوج کی تحویل میں لی گئی تھی ، نے غزہ میں مزاحمت کے ذریعہ گرفتار کیے گئے اسرائیلی فوجی کے اہل خانہ کی محمود عباس سے ملاقات پر غم و غصے کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا ، "جب تک محمود عباس اس طرح سے بات کرتے ہیں تو وہ فلسطینی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے اور ہم اسرائیلی فوجی کے اہل خانہ سے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ ہمارے بچوں کی لاشوں کی بازیابی اور ان کی تدفین کے لئے کوششیں کریں۔”
انہوں نے مزید کہا: "ہمارے بارے میں اتھارٹی کا رویہ معاندانہ حیثیت کا حامل تھا امدادی نہیں تھا۔اتھارٹی ہمارے بچوں کی لاشوں کے معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کرتی ہے۔ ہمیں بتائے کہ یہ ہم سے بڑامسئلہ ہے۔