کل بدھ کے روز نیم خود مختار عراقی کردستان کے صدر مقام أربيل میں فائرنگ کے نتیجے میں کم سے کم تین ترک سفارت کار ہلاک ہو گئے۔ ادھر ترک ایوان صدر نے بدھ کے روز أربيل [عراقی کردستان] میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک سفارتکار کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
عراق کے سرکاری ٹی وی اور ترک میڈیا کے مطابق أربيل میں ترک قونصل خانے کے ڈپٹی قونصل جنرل بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ ترک وزارت خارجہ نے بھی أربيل میں اپنے قونصل خانے میں کام کرنے والے ایک اہلکار کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
ذرائع کے مطابق نامعلوم مسلح بندوق برداروں نے سفارتکاروں پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ ایک ریستوران میں کھانا کھا رہے تھے۔ أربيل پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک مسلح شخص نے فائرنگ کی اور بعد میں جائے حادثہ سے فرار ہو گیا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ انھوں نے حملے کے بعد جائے حادثہ اور عینکاوہ کے علاقے میں جگہ جگہ ناکے لگے دیکھے ہیں۔ عینکاوہ کا علاقہ ریستوران کے لیے مشہور ہے۔
ابھی تک کسی تنظیم نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ کردستان لیبر پارٹی کے عسکری ونگ کے ترجمان دیار دنیر نے أربيل حملے سے اپنی تنظیم کی لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔
ترکی، عراق کا ہمسایہ ملک ہے، اور وہ شمالی عراق کے علاقوں پر زمینی اور فضائی حملے کرتا رہتا ہے جن میں وہ کردستان لیبر پارٹی کے خفیہ ٹھکانوں کو نشانہ بناتا ہے۔ کردستان لیبر پارٹی کو امریکا اور یورپی یونین دہشت گرد تنظیم گردانتے ہیں۔