شنبه 10/می/2025

"حد السیف”۔۔۔ مزاحمت کی طاقت نے صہیونی جھوٹ کا پول کھول دیا!

بدھ 10-جولائی-2019

پچھلے سال 11 نومبر کو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کی ایک خفیہ کمانڈو کارروائی میں‌ناکامی صہیونی ریاست کےسیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے اعصاب پرسوار ہے۔ ہرآنے والے دن اس کارروائی میں صہیونیوں کی شکستوں اور ناکامیوں کا کوئی نیا پول کھلتا اور صہیونی سیکیورٹی ادارے احساس شرمندگی میں ڈوب جاتے ہیں۔

فلسطینی مزاحمتی قوتوں اور اسرائیل کی دفاعی صلاحیت میں کوئی تقارب، تقابل یا مماثلت نہیں۔ اسرائیل کے پاس جدید ترین جنگی اور انٹیلی جنس آلات، عالمی سطح کی تجربہ کار پیشہ ور فوج اور جاسوسی کے میدان میں بڑے بڑے محاذ فتح کرنے کے دعوے دار صہیونیوں کو یہ گھمنڈ رہاہے کہ وہ ناقابل تسخیر ہیں۔ مگر 11 نومبر 2018ء کو غزہ کےجنوبی علاقےخان یونس میں کی گئی ایک کمانڈو کارروائی میں صہیونی انٹیلی جنس کا پلان جس طرح خاک میں ملا دیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔

یہ کارروائی غزہ کےجنوبی علاقے میں القسام بریگیڈ کے کمانڈروں کو زندہ پکڑنے کے لیے کی گئی تھی مگر کارروائی میں سات فلسطینی جاں باز جام شہادت نوش کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے آپریشنل انچارج سمیت متعدد فوجی افسروں اور اہلکاروں کوبھی جھنم واصل کرگئے۔ 

القسام بریگیڈ نے اسے’حد السیف’ آپریشن کا نام دیا۔ حال ہی میں اسرائیلی میڈیا میں یہ خبر شائع ہوئی کی خان یونس میں خفیہ آپریشن میں‌ناکامی پر اسرائیلی  ملٹری انٹیلی جنس ادارے’امان’ کے متعلقہ افسر کو برطرف کردیا گیا ہے۔ یہ برطرف اس آپریشن میں ناکامی پرکی گئی ہے۔

اسرائیلی فوج کی تحقیقات
اتوار کے روز اسرائیلی فوج کی طرف سے 11 نومبر کو خان یونس میں‌ کیے گئے آپریشن میں ناکامی کی تحقیقات کے نتائج جاری کیے گئے۔ رپورٹ میں‌کہا گیا کہ یہ کیسی کارروائی تھی جس میں فوجی کمانڈو اپنے بارے میں اہم دستاویزات، نقشے، اسلحہ اور دیگر آلات وہیں چھوڑ کرفرار ہوگئے۔ اس کارروائی کو تنکینکی اعتبار سے ایک غلط آپریشن قرار دیتے ہوئے متعلقہ یونٹ اور اس کے اہل کاروں کو اس کی ناکامی کا ذمہ دار قرا دیا گیا ہے۔

اسرائیلی آرمی چیف کی نگرانی میں قائم کردہ تحقیقات کمیشن نے آپریشن کی ناکامی کے اسباب کا بھی تعین کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کارروائی کو کامیاب بنانےکے لیے جتنی فوجی کمک کی ضرورت تھی وہ مہیا نہیں کی گئی۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کی طاقت اور دفاعی صلاحیت کا غلط اندازہ لگایا گیا۔ کارروائی میں کئی اور بھی تکنیکی کم زوریاں اور سقم ہیں۔

تحقیق میں‌بتایا گیا ہے کہ جب یہ کارروائی کی گئی تو اس وقت آرمی چیف جنرل گیڈی آئزنکوٹ اور ‘شاباک’ کے چیف ندائو ارگمان فوجی ہیڈکواٹر میں موجود تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ غزہ میں آپریشن کے لیے بھیجے گئےفوجی کمانڈو مشکل میں‌ چنانچہ آرمی چیف اورشاباک کے سربراہ نے انہیں فورا ریسکیو کرنے کا حکم دیا اور خود دونوں نے ریسکیوآپریشن کی نگرانی کی۔

اسرائیلی فوجیوں کا کہنا ہے کہ کارروائی میں حصہ لینے والی ایک خاتون نے ایک القسام کمانڈر کو اپنی شناخت بتا دی اور اپنا نام ظاہر کردیا۔ کارروائی میں وہ خاتون ہلاک ہوگئی تھی۔ اس کارروائی میں حصہ لیتے ہوئے زخمی ہونےوا لا ایک فوجی افسر ابھی تک زیرعلاج ہے۔

ناکامی کا ثبوت
فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں خونی آپریشن کی تحقیقاتی رپورٹ کا اجراء اور اس میں‌بیان کردہ حقائق اس آپریشن کی ناکامی کا واضح ثبوت ہیں۔یہ کارروائی اسرائیل کی کمانڈو یونٹ’سائیرٹ مٹکال’ کے کمانڈوز سرانجام دی مگر وہ اس میں‌بری طرح‌ ناکام رہے۔

عدنان ابو عامر کا کہنا تھا کہ اس تحقیقاتی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس اداروں میں استعفوں کی ایک نئی لہراٹھے گی۔ یہ ناکامی ایک ایسے وقت میں اسرائیل کو دیکھنے کو ملی ہے جب شمال اور جنوب میں اسرائیل عرب دنیا میں دراندازی کررہاہے مگر اسے غزہ کے میدان میں مجاھدین نے ناک رگڑنے پرمجبور کردیا۔

ناکامی کا حجم کم کرنے کی کوشش
تجزیہ نگار ناصر ناصر نے غزہ میں گذشتہ برس کی گئی فوجی کارروائی  پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی انٹیلی جنس اداروں کو خان یونس آپریشن میں جتنی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اسے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صہیونی حکام اور انٹیلی جنس ادارے اس کارروائی میں ناکامی کے حجم کو کم سے کم کرکے پیش کررہے ہیں۔

اپنے ایک مضمون میں‌ناصر ناصر نے لکھا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج اور خفیہ اداروں کی بھاری بھرکم صلاحیتوں اور وسائل سے کوئی خوف نہیں۔ تمام تر وسائل اور جدید جنگی آلات سے لیس ہونے کے باوجود صہیونی فوج کے نام نہاد ہیرو فلسطینی مجاھدین کے سامنے ناک رگڑنے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اسرائیلی فوج 80 ارب شیکل کی رقم کہاں‌خرچ کرتی ہے جب کی فلسطینی مزاحمت کاروں کے پاس اس بجٹ کا ایک فی صد بھی نہیں‌ہوتا؟ ایسے میں خان یونس آپریشن میں‌ہیرو کون ہے؟ اسرائیلی یا فلسطینی مجاھدین۔

غلبہ اور بہادری
عسکری امور کےتجزیہ نگار رامی ابو عبیدہ نے بتایا کہ ‘حد السیف’ آپریشن نے غزہ میں فلسطینی مجاھدین کی صلاحیت اور دشمن کو حیران کرنے والی قدرت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ مجاھدین نے دشمن کی طرف سے چھپ کر کیے گئے اس وار بھی جس بہادری اور جرات کے ساتھ مقابلہ کیا وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ دو بہ دو لڑائی میں صہیونی دشمن فلسطینی مزاحمت کاروں کا مقابلہ نہیں‌ کرسکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ صہیونی دشمن نے ایک خاموش اور بزدلانہ کارروائی کی مگر اس کے مقابلے میں فلسطینی مجاھدین ہمہ وقت بیدار اور چوکنا ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی