‘شاہ سے بڑھ کرشاہ کے وفادار’ کے مصداق خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے ترجمان بعض ذرائع ابلاغ کو بھی ان کے حکمراںوں کی طرح خواہ مخواہ کی تکلیف ہے۔ حال ہی میں خلیجی ممالک کے اخبارات، ٹی وی چینل اور دوسرے ذرائع ابلاغ کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف غیرمسبوق نفرت انگیزمہم شروع کی گئی مگر اس مکروہ مہم کے اسباب اور محرکات واضح ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے اس حوالے سے خلیجی ذرائع ابلاغ کے طرز عمل اور قضیہ فلسطین کے حوالے سے رویےپرایک رپورٹ میں طائرانہ نظر ڈالی ہے۔ خلیجی ذرائع ابلاغ کی طرف سے قضیہ فلسطین پرحملہ دراصل خلیجی ممالک کے سیاسی موقف اور ان کی طویل عرصے سے چلی آرہی پالیسی کا عکاس ہے۔چونکہ خلیجی ملکوں میں ذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹنے کی ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے اور کوئی اشاعتی یا نشریاتی ادارہ وہاں کی حکومتوں کی وفاداری کے سوال کوئی بات نہیںکہہ سکتا۔
اس کی ایک وجہ پرانے عرصے سے یاسر عرفات مرحوم اور تنظیم آزادی فلسطین کے ساتھ جاری اختلافات بھی ہیں۔ اس کے علاوہ فلسطین کی بعض بائیں بازو کی تنظیمیں اور مذہبی جماعتیں بھی خلیجی ملکوںکے لیے قابل قبول نہیں۔ یہ ممالک ان سےبھی ناخوش ہیں۔
جارحانہ رویے کی مختلف شکلیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ذرائع ابلاغ نے جس انداز میں قضیہ فلسطین کوریج دی ہے وہ ان ملکوںکے سیاسی طرز عمل اور فلسطینیوں کے حوالے سے ان کے نا مناسب رویے کا عکاس ہے۔
رپورٹ کے مطابق خلیجی ملکوںکے ذرائع ابلاغ کی طرف سے قضیہ فلسطین کے خلاف کئی انداز میں جارحانہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کے خلاف اوراسرائیل کےساتھ تعلقات کونارملائز کرنے کی حمایت، فلسطینی مقدسات کےحوالے سے اپنی دینی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے صرف نظر کرنا اور فلسطینی قوم کے اساسی اور بنیادی اصولوں پر تنقید جیسے حربے دیکھنے کو مل رہےہیں۔
فلسطینیوں کے سیاسی طرز عمل کو بھی خلیجی ملکوں کے ذرائع ابلاغ میں احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور اس پرتاریخ گواہ ہے۔
مگر تمام خلیجی ممالک کی پالیسی ایک جیسی نہیں۔ بعض ذرائع ابلاغ اور صحافی اپنے ملکوں کی قضیہ فلسطین کےحوالے سے پالیسی کو ہدف تنقید بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ بعض حکمرانوں کے رویے پرافسوس اور ندامت کا اظہار کرتے ہیں۔ قضیہ فلسطین کی مخلصانہ حمایت کرنے والے صحافتی حلقے فلسطینیوں کے خلاف برتے جانے والے غیراخلاقی طرز عمل کی مخالفت کے ساتھ قضیہ فلسطین کی تاریخ، تنظیموں اور شہداء کے ساتھ وفاداری کا دم بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جہاں تک خلیجی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں کا معاملہ ہے تو وہ دن رات اسرائیلی ریاست کی مالاجپتے دکھائی دیتےہیں۔ انہیں فلسطینیوںپر اسرائیلی ریاست کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم کی کوئی فکر نہیں بلکہ انہیں اگرکوئی فکر دامن گیر ہے تو وہ یہ کہ ان کا اقتدار کس طرح محفوظ ہوسکتا ہے۔
خلیجی ممالک کے ذرائع ابلاغ کے فلسطینیوں کے حوالے سے زبان وبیان کو بھی غیرمناسب سمجھا جاتا ہے۔ خلیجی ابلاغی ادارے فلسطینی قوم پر غیرملکیوں کا ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ فلسطینی قوم اور اس کی تاریخ کے حوالے سے ایسے ایسے فرسودہ خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے جنہیں مہذب انداز میںبیان نہیںکیا جا سکتا۔
جارحانہ طرز عمل کے اسباب
خلیجی ممالک کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے قضیہ فلسطین کی مخالفت اور فلسطینیوں کے حوالے سے ان کے جارحانہ طرز عمل کے کئی اسباب اور محرکات ہیں۔ ایک بڑا محرک ان ملکوںکے حکمرانوں کو اپنے اقتدار کے چھن جانے کے خوف کا ہے۔ عرب ملکوں میں اٹھنے والی عوامی تبدیلی اور بے چینی کی لہروںنے ان ملکوں کےحکمرانوں کو خوف زدہ کردیا ہے۔
یوں خلیجی ملکوں کے حکمران اور بادشاہتیں اپنے تخت اور تاج بچانے کے لیے اسرائیل سے بالواسطہ اور اس کے پشت پناہ امریکا بہادر سے براہ راست معاونت طلب کرتے ہیں۔ امریکا ان ملکوں پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے حوالے سے نرم رویہ اپنائیں اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کریں، جس کے بدلے میں ان ملکوں کےاقتدار کو بچانے کی ضمانت دی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق ان عرب اور خلیجی ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور صہیونی ریاست کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور دفاعی معاہدے کرنےکے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال حال ہی میں خلیجی ریاست بحرین کے دارالحکومت مناما میں ہونے والی امریکی اقتصادی کانفرنس کی صورت میں دیکھی گئی۔ یہ کانفرنس قضیہ فلسطین کے حوالے سے سعودی عرب، امارات اور بحرین کی طرف سے انحراف کی بدترین شکل ہے۔ مناما نے امریکی اقتصادی کانفرنس کی میزبانی کرکے فلسطینی قوم کے حقوق ، مطالبات اور مفادات کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا۔ دوسری طرف فلسطینی قوم نے خلیجی ملک کی میزبانی میں ہونے والی کانفرنس کا مکمل بائیکاٹ کیا۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے ہونے والی یہ کانفرنس ان عرب ملکوں کی میزبانی میں ہوئی جو ایران کے سخت ترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
مناماکانفرنس کی میزبانی کے دوران سعودی، اماراتی اور بحرینی ذرائع ابلاغ نے فلسطینیوں کو بڑھ چڑھ کر تنقید کا نشانہ بنایا مگر خلیجی ملکوںکے ذرائع ابلاغ کی تنقید پر فلسطینیوںکی طرف سے جذباتی رد عمل کے بجائے محتاط، پیشہ وارانہ اور باہمی احترام پرمبنی رویہ اختیار کیا۔ سعودی عرب، امارات اور بحرین کے ذرائع ابلاغ کی تند وتیز تنقید کا بھی کسی محتاط انداز میں جواب دیا تاکہ ان ملکوں کے عوام کی محبت کو ٹھیس نہ پہنچے اور ان ملکوں کےعوام کی قضیہ فلسطین کی حمایت اور صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرنےکے خلاف موقف میں مزید تقویت پیدا ہو۔
اگرچہ قضیہ فلسطین، فلسطینی قوم اور تحریک آزادی کے خلاف ابلاغی حملہ غیرمناسب اور فلسطینی قوم پرجارحیت کے مترادف ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خلیجی ملکوں کے ذرائع ابلاغ قضیہ فلسطین اور فلسطینی قوم کے خلاف منی پروپیگنڈہ کرتے ہوئے گرج برس رہے ہیں ان کے پیچھے اعلیٰ سیاسی قیادت کا ہاتھ ہے جو حکمرانوں کےاشاروں پر ناچتے ہیں۔