‘ہم سب کے دل بیت المقدس میں ہیں، اے اہل غزہ تم ہم میں سے ہو اور ہم تم سے ہیں”۔ یہ الفاظ مصر کے سابق شہید صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے ہیں جو تاریخ فلسطین میں ہمیشہ امر رہیں گے۔ ڈاکٹر محمد مرسی اپنی زندگی کے اوائل سے شہادت تک قضیہ فلسطین اور فلسطینی قوم کے حقوق کے پرزور حامی رہے۔ سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کے ساتھ اپنے عزم و ارادے پر ثابت قدم رہتے ہوئے عزیمت کی زندگی گذاری۔
جب سے مصری سیاست میں قدم رکھا فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی قوم ان کے ساتھ اٹوٹ محبت کرتی اور غاصب صہیونی اور یہودی ان سے انتہا درجے کی نفرت کرتے۔ آج ڈاکٹر محمد مرسی فلسطینی قوم کو بے یارو مددگار چھوڑ کر اللہ کے حضور پیش ہو گئے تو فلسطینی قوم صدمے سے دوچار اور غاصب صہیونی بغلیں بجا رہے ہیں۔
شہید محمد مرسی کی نظر میں قضیہ فلسطین
مصر کے پہلے جمہوری اور آئینی صدر ڈاکٹر محمد مرسی شہید صرف مصر ہی کے نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کے حقوق کے علم بردار تھے۔ ان کی نظر میں مسئلہ فلسطین مسلم اور عرب دنیا کے ‘ام المسائل’ میں سر فہرست تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قابض صہیونی ریاست کے خلاف جاری تہذیبی جنگ میں فلسطین کا مسئلہ اولین حیثیت رکھتا ہے۔ مارچ 2012ء کو ایک فلسطینی وفد سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ ‘قضیہ فلسطین ہر مصری شہری کے دل میں جاگزیرن اور ایک کے دماغ میں موجود ہے۔ قضیہ فلسطین نہ صرف ہماری تاریخی، نظریاتی اور قومی تکوین کا حصہ ہے بلکہ مصر کی قومی سلامتی کا سنگ اول ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ فلسطینی قوم کی حقیقی معنوں میں معاونت کی جائے۔ ایسی معاونت جسے فلسطینی قوم محسوس کرسکے’۔
پانچ جنوری 2011ء کو مصر میں آنے والے انقلاب کے بعد مصر میں سیاست انتشار کا شکار ہوچکی تھی۔ ایسے میں اسرائیلی ریاست کے خلاف مزاحمت کے حامی کسی مصری کو ملک کی قیادت سونپا جانا بہت سوں کے لیے ناقابل برداشت تھا۔
ڈاکٹر محمد مرسی سنہ 2000ء سے 2005ء تک اخوان المسلمون کے پارلیمانی بلاک کے سربراہ رہے۔ اس دوران ان کا قضیہ فلسطین کے دفاع کے لیے موقف کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان کے الفاظ میں انتفاضہ اور مزاحمت فلسطینیوں کا دیرینہ حق ہے اور ہر فلسطینی کو اپنے وطن کی آزادی، عالمی حقوق اور آسمانی مذاہب کے تحت حاصل حقوق کے لیے جدوجہد کا حق ہے۔ فلسطینی اپنے دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو نہ صرف اپنے اندر بلکہ قرارداد 181 کے تحت گرین لائن سے باہر بھی آزادی کے لیے جدو جہد کا حق ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ‘اللہ کی قسم اگر عرب حکومتیں اور عوام حرکت میں آجائیں تو اسرائیل ایک دن بھی نہیں ٹھہر سکے گا’۔ ڈاکٹر محمد مرسی پوری زندگی قبلہ اول اور فلسطینیوں کے حقوق کے محافظ اور سپاہی رہے اور غاصب صہیونی ریاست کے خلاف فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے۔
سنہ 2008ء اور 2009ء میں ڈاکٹر محمد مرسی مصر کی اندرونی سیاست میں مشغول رہے مگر اس دوران بھی انہوں نے فلسطینی قوم کو فراموش نہیں کیا۔ وہ اخوان کی ریلیوں اور مظاہروں کے دوران کھل کر کہتے کہ وہ اخوان المسلمون صہیونی ریاست کے جرائم کو عالمی عدالتوں میں اٹھانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔
ناقابل فراموش موقف
سنہ 2006ء میں فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اسلامی تحریک کی کامیابی کے بعد صہیونی ریاست نے غزہ کی پٹی پر معاشی پابندیاں عاید کیں۔ ان پابندیوں میں اسرائیل کو امریکیوں کی بھی در پردہ حمایت حاصل تھی اور کئی پڑوسی ملک اور حکومتیں بھی غزہ کے عوام کے خلاف صہیونی ریاست کی غیر اعلانیہ پشت پناہی کر رہی تھیں۔
ایسے میں عالمی سطح پر زندہ ضمیر کارکنوں نے غزہ کے عوام کے ریلیف کے لیے امدادی قافلے بھیجنا شروع کیے تو اس کار خیر میں بھی ڈاکٹر محمد مرسی پیش پیش رہے۔ ترکی کی جانب سے غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے سمندر کے راستے امدادی قافلہ روانہ کیا تو ڈاکٹر محمد مرسی اور اخوان المسلمون نے اس امدادی قافلے میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور دو ارکان پارلیمنٹ ڈاکٹر حازم فاروق اور محمد البلتاجی کو مرمرہ جہاز کے ذریعے غزہ بھیجا۔
اسرائیلی فوج نے انہیں حراست میں لے لیا جنہیں بعد ازاں مصری وزارت خارجہ کی مداخلت رہائی دلائی گئی۔
ڈاکٹر مرسی اور فلسطینی مزاحمت
شہید ڈاکٹر محمد مرسی کو اسرائیلی مظالم کے خلاف جرات کے ساتھ بولنے اور آواز اٹھانے کی وجہ سے شہرت حاصل تھی۔ وہ ہمیشہ فلسطینی قوم کے مزاحمت کے حق کے پرزور حامی رہے۔ سنہ 2008ء اور 2009ء میں جب قابض صہیونی ریاست نے غزہ پر جنگ مسلط کی اور آوی گیڈور لائبرمین نے غزہ میں حماس کا ناطقہ بند کرنے مطالبہ کیا ڈاکٹر محمد مرسی نے مصر کی ترجمانی کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے جرائم کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ انہوںنے عرب اور مسلم اقوام اور حکومتوں پر زور دیا کہ وہ فلسطینی قوم کی تحریک مزاحمت میں ان کا ساتھ دیں۔
انہوں نے اس وقت کی مصری حکومت کی طرف سے صہیونی ریاست کے حوالے سے نرم گوشہ اختیار کرنے اور حماس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی کی حمایت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
شہید ڈاکٹر محمد مرسی نے صہیونیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم 90 ملین ہیں اور تم پانچ ملین ہو۔ اس لیے نوے ملین کے ساتھ تمہارا کوئی مقابلہ نہیں۔ ان کے جرات مندانہ موقف کی وجہ سے صہیونی دشمن تھر تھرکانپتا تھا۔