فلسطینی قیادت نے تصدیق کی ہے کہ وہ آئندہ ماہ بحرین میں منعقد ہونے والی اقتصادی کانفرنس میں ہرگز شریک نہیں ہو گی۔ یہ کانفرنس امریکی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیلی فلسطینی تنازع کے حل کے واسطے تیار کیے جانے والے امن منصوبے کے سلسلے میں ہو گی۔
وائٹ ہاؤس نے اتوار کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ ماہ 25 اور 26 جون کو منامہ میں ایک اقتصادی ورک شاپ کا انعقاد کرے گا۔ ورک شاپ میں اُس امن منصوبے کے اقتصادی پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جائے گی جس کا طویل عرصے سے انتظار ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے واضح کیا ہے کہ مذکورہ اقتصادی کانفرنس کے حوالے سے کسی نے اس کے ساتھ مشاورت نہیں کی اور کسی فریق کو یہ حق نہیں کہ وہ اتھارٹی کی طرف سے مذاکرات کرے۔ فلسطینی اتھارٹی نے بدھ کی شب تاخیر سے جاری بیان میں باور کرایا ہے کہ منامہ میں امریکا کی مجوزہ کانفرنس میں کسی صورت بھی شرکت نہیں کی جائے گی۔
اس سلسلے میں پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سکریٹری جنرل صائب عریقات نے کہا کہ جو کوئی بھی فلسطینی عوام کے مفادات کا دفاع چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ فلسطینی متفقہ موقف کی سپورٹ کرے۔ یہ موقف صدر محمود عباس، پی ایل او تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی، تمام فلسطینی گروپ اور تحریکوں اور سرکاری اور نجی سیکٹر کی شخصیات کی نمائندگی کرتا ہے۔
وہائٹ ہاؤس نے ابھی تک کانفرنس میں مدعو شرکاء کے حوالے سے تفصیلات پیش نہیں کی ہیں۔ تاہم متعدد نمایاں فلسطینی کاروباری شخصیات نے بتایا ہے کہ انہوں نے کانفرنس میں شرکت کی دعوت کو مسترد کر دیا ہے۔
دسمبر 2017 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد سے فلسطینیوں نے امریکی انتظامیہ کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
فلسطینی فریق مشرقی بیت المقدس کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت شمار کرتے ہیں۔ انہوں نے امریکا کے مجوزہ امن منصوبے کی مخالفت کی ہے جو اسرائیل کے حق میں جانب داری کا حامل ہے۔
توقع ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ آئندہ ماہ کے اوائل میں اپنے امن منصوبے کا انکشاف کرے گی۔
منامہ کانفرنس میں ممکنہ طور پر فلسطینی علاقوں کے لیے وسیع سرمایہ کاری کے وعدے سامنے آ سکتے ہیں مگر غالب گمان ہے کہ کانفرنس میں اسرائیلی فلسطینی تنازع کے سیاسی معاملات پر توجہ نہیں کی جائے گی۔