شام کے دارالحکومت ‘دمشق’ کے جنوب میں واقع ‘یرموک’ پناہ گزین کیمپ کو گذشتہ برس 25 اپریل کو نے اسدی فوج کی طرف سے کی گئی بمباری میں تباہ وبرباد کر دیا گیا تھا۔ شامی فوج کی جانب سے کیمپ کے ایک بڑے حصے پر تسلط جمانے کے بعد اس کیمپ میں موجود فلسطینی پناہ گزینوں کووہاں سے نکال دیا گیا۔
فلسطینی پناہ گزین جو ایک بار پھر ایک نئی ھجرت کا سامنا کر رہے ہیں اور ایک سال گذرجانے کے بعد بھی فلسطینی اپنے ان عارضی گھروں کو نہیں لوٹ سکے ہیں۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بار بار فریاد کے باوجود دنیا بے حس وحرکت ہے اور فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی گئی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ‘یرموک’ پناہ گزین کیمپ میں ہرطرف تباہی اور بربادی کے مناظر ہیں۔ لوٹ، مار، منظم انداز میں کیمپ میں رہنے والے فلسطینیوں اور شامی شہریوں کی املاک کی لوٹ مار کی گئی۔ فلسطینی پناہ گزین اور مقامی شہری اس لوٹ مار اور بربادی کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔
‘یرموک’ پناہ گزین کیمپ کے معدودے چند افراد ہی ایک سال کے بعد واپس ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایک اور النکبہ کا سامنا ہے۔ موت آسان اور زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔ پناہ گزین کیمپ میں رہنے والے فلسطینی پناہ گزینوں کو مرنے کے بعد انہی کے گھروں میں دفن کیا جاتا ہے۔
ھجرت کی ہولناک یادیں
فلسطینی صحافی اور ‘فجر پریس’ کے ڈائریکٹر احمد عوض نے بتایا کہ ‘یرموک’ پناہ گزین کیمپ سے پناہ گزینوں کی ھجرت کی یادیں انتہائی المناک اور درد ناک ہیں۔ دہشت گرد تنظیم ‘داعش’ نے اس کیمپ میں داخل ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی اور سماجی اور انسانی حقوق کارکنوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ حتیٰ کہ کئی فلسطینی امدادی کارکن اور صحافی بھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
عوض نے مزید کہا کہ پناہ گزینوں کے الفاظ ان کے درد کی کہانی کہنے کے لیے کافی ہیں الیرموک کیمپ کو شام میں فلسطین کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ میں اسی کیمپ میں پیدا ہوا، اسی میں تعلیم حاصل کی اور وہیں شادی کی۔ مجھ سمیت دیگر فلسطینی پناہ گزینوں میں سے کسی کو یقین نہیں تھا کہ ہمارے ساتھ اس طرح کی المناک اورخونی تاریخ دہرائی جاسکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں عوض نے کہا کہ اس کیمپ میں دسیوں فلسطینی شہری اور مجاھد رہ نما فلسطین کےدفاع میں لڑتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ ‘یرموک’ پناہ گزین کیمپ کے خلاف ایک بڑی سازش کی گئی اور اس سازش میں علاقائی اور مقامی قوتوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اجرتی قاتل اور داعش کا بھی اہم کردار ہے۔
فلسطینی صحافی کا کہنا تھا کہ اگرچہ کیمپ میں واپسی مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ کیمپ میں 90 فی صد بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوچکا ہے۔
مسلسل نکبہ
فلسطینی سماجی کارکن عمار الشیخ کا کہنا ہے کہ ‘یرموک’ پناہ گزین کیمپ میں جو کچھ ہوا اس نے النکبہ کی ہولناک یادیں تازہ کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ کیمپ سے دوری کی مدت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم ایک ایسے وقت میں یرموک کیمپ سے دور ہیں جب دوسری طرف پوری فلسطینی قوم النکبہ’ کی یاد منا رہی ہے۔
قدس پریس سے بات کرتے ہوئے عمار الشیخ نے کہا کہ اس وقت فلسطینی قوم کو ایک نئی سازش ‘صدی کی ڈیل’ کا سامنا ہے مگر فلسطینی قوم کا اس سازش کے خلاف متحد ہونا قابل قدر ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کو 1948ء کی النکبہ آج بھی یاد ہے اور حق واپسی آج بھی ان کا نعرہ ہے۔
‘یرموک’ پناہ گزین کیمپ دمشق کے جنوب میں 8 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ اس کیمپ میں کچھ شامی اور زیادہ فلسطینی پناہ گزین آباد ہیں۔ مسلسل پانچ سال سے یہ کیمپ اسدی فوج اور اس کی حامی ملیشیا کے محاصرے میں ہے۔ اس وقت اس کی آباد پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جب کہ شام میں سنہ 2011ء کو شروع ہونے والی خانہ جنگی اور بغاوت کے وقت اس کیمپ کی آبادی ایک لاکھ 60 ہزار افراد پر مشتمل تھی۔
انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق ‘یرموک’ پناہ گزین کیمپ میں خانہ جنگی کے دوران ایک ہزار 363 افراد لقمہ اجل بن چکےہیں۔ ان کے علاوہ 200 افراد علاج کی سہولت نہ ملنے کے باعث دم توڑ گئے۔